Urdu News

خواتین کی قربانیاں اور جنگ آزادیئ ہند

خواتین کی قربانیاں اور جنگ آزادیئ ہند

آزادی اُس خوبصورت جذبے کا نام ہے جو انسان کو جان سے زیادہ پیارا ہے۔آزادی کی خشک روٹی کو غلامی کے حلوہ پراٹھا سے بہتر اسی لئے کہا گیا ہے۔ دنیا کی ہر زندہ قوم نے آزادی کو ایک نعمت قرار دیا ہے۔ ہمارا ملک ہندوستان بھی انگریزوں کی غلامی کی زنجیرمیں جکڑا رہا۔ غلامی کی اس زنجیر کو توڑنے کے لئے اس ملک کے مرد و خواتین نے ایک ساتھ اپنی قربانیاں پیش کیں۔ ہمارا ملک جو جنت نظیر ہے، اس جنت کے حصول کے لئے ہمارے بزرگوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
کتنے ویرانوں سے گزرے ہیں تو جنت پائی ہے
سیکڑوں قربانیاں دے کر یہ نعمت پائی ہے
آزادی کی اس نعمت کو حاصل کرنے کے لئے اس ملک کی خواتین نے مردوں کے شانہ بہ شانہ جد و جہد کی ہے۔ خواتین کے ذکر کے بغیر جنگ آزادی کی تاریخ نا مکمل ہے۔ خواتین نے ہر قدم پر اپنی قربانی پیش کر اس ملک کو آزادی دلانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ 1857کی پہلی جنگ آزادی سے بہت پہلے 1817میں بھیما بائی ہولکر نے انگریز افسر کرنل میلکم کو جنگ میں شکست دی تھی۔ بھیما بائی ہولکر نے گوریلا جنگ میں جو مہارت حاصل کی تھی اس سے انگریز افسر ایک زمانے تک خوف کھاتے رہے۔ تحریک آزادی کے ابتدائی زمانے میں ہی بیگم زینت محل، رانی لکشمی بائی، کِتور رانی چینما، اور بیگم حضرت محل جیسی خواتین نے یہ باور کرا دیا تھا کہ اس جنگ میں خواتین اہم اور فیصلہ کن کردار نبھانے والی ہیں۔ خواتین نے پردے کے پیچھے سے اہم کردار تو نبھایا ہی، محاذ جنگ پہ فوجی دستوں کی سربراہی بھی کی۔ رام گڑھ کی رانی جندن کور اور چوہان رانی نے میدان جنگ میں اپنی فوجوں کے ساتھ جس بہادری کا مظاہرہ کیا وہ تاریخ جنگ آ زادی کا ایک اہم باب ہے۔
1857کے اس انقلاب کو ہم پہلی جنگ آزادی قرار دیتے ہیں جس کی پہلی صدا میرٹھ سے منگل پانڈے نے بلند کی تھی۔ پہلی جنگ آزادی کے حوالے سے اگربہادر شاہ ظفر، منگل پانڈے، تاتیا ٹوپے، نانا صاحب، ویر کنور سنگھ اور عظیم اللہ خان کا نام سامنے آتا ہے توبیگم زینت محل، بیگم حضرت محل اور جھانسی کی رانی لکشمی بائی کا کردار بھی ناقابل فراموش ہے۔ لارڈ ڈلہوزی نے دیسی ریاستوں کو ہڑپنے کا جو ناپاک قدم اٹھایا تھا اسے جھانسی کی رانی لکشمی بائی کسی صورت برداشت کرنے کو تیار نہیں تھیں۔ رانی لکشمی بائی نے میدان جنگ میں جس بہادری سے انگریزوں کا مقابلہ کیا وہ تاریخ میں رقم ہے۔ جھانسی کی رانی لکشمی بائی آج بھی ہندوستانی عوام کے دلوں میں بہادری، دلیری اور شجاعت کا استعارہ بن کے زندہ ہے۔ 1857کی پہلی جنگ آزادی میں بہادر شاہ ظفر کے ساتھ ان کی بیگم زینت محل پر بھی انگریزوں کا عتاب نازل ہوا۔ بہادر شاہ ظفر کے ساتھ انھیں بھی جلاوطن کیا گیا۔ جولائی 1886میں رنگون میں ہی ان کا انتقال ہوا اور اپنے شوہر بہادر شاہ ظفر کے مزار کے برابر میں دفن ہوئیں۔ رانی لکشمی بائی اور بیگم زینت محل کی طرح ہی اودھ کے نواب واجد علی شاہ کی بیگم حضرت محل بھی 1857کی پہلی جنگ آزادی میں ایک ناقابل فراموش کردار ہیں۔ جب اَوَدھ کے نواب واجد علی شاہ کو جلا وطن کرکے انگریزوں نے کلکتہ بھیج دیا تو لکھنؤ میں بیگم حضرت محل نے فوج کی کمان سنبھال لی۔ اُڑا دیوی اور راجہ جئے لعل سنگھ کی مدد سے بیگم حضرت محل نے انگریزوں سے اودھ کو آزاد کرا لیا۔ وہ جس بہادری اور شجاعت سے میدان جنگ میں اپنی فوج کی سربراہی کر رہی تھیں وہ اس زمانے میں ناقابل یقین واقعہ تھا۔انگریزوں کی سازش اور اپنوں کی ریشہ دوانیوں کے سبب بیگم حضرت محل کو بعد میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ انگریز افسروں نے انھیں گرفتار کرنا چاہا لیکن وہ بڑی چالاکی سے نیپال کی طرف نکل گئیں۔ لیکن اودھ کے عوام کے دلوں میں بیگم حضرت محل نے ایک نہ مٹنے والا نقش قائم کر دیا۔
ہم جب کبھی ہندوستان کی جنگ آزادی کی بات کرتے ہیں تو 1857سے 1947تک کی 90سالہ تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں۔ کچھ مورخین نے جنگ آزادی کی تاریخ 1757کی پلاسی کی جنگ سے شروع کی ہے۔ جب بنگال کے مرشد آباد میں ہگلی ندی کے کنارے پلاسی کے میدان میں لارڈ کلائیو نے سراج الدولہ کو شکست دی تھی۔ لارڈ کلائیو نے نواب سراج الدولہ کے فوجی کمانڈر میر جعفر کو رشوت دے کر اپنی جانب کر لیا تھا۔ پلاسی کی اسی جنگ کے بعد ”میر جعفر“ کا نام دھوکہ، غداری، دغا اور فریب کا استعارہ بن گیا۔ پلاسی کی جنگ میں نواب سراج الدولہ کی شکست سے ہندوستان میں انگریزوں کو اپنی من مانی کرنے کا حوصلہ مل گیا۔ لیکن ظلم آخر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مِٹ جاتا ہے۔ انگریزوں نے ہندوستانی قوم پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی۔ ظلم کی انتہاؤں سے 1857کا انقلاب رونما ہوا۔ اسی لئے زیادہ تر مورخین جنگ آزادی کی تاریخ 1857سے شروع کرتے ہیں۔
1857کی پہلی جنگ آزادی سے 15اگست 1947تک کی تاریخ جد وجہد اور قربانیوں سے عبارت ہے۔ قابل فخر اور قابل اطمنان بات یہ ہے کہ تاریخ کی اس کتاب میں کوئی باب خواتین کی قربانیوں سے خالی نہیں ہے۔ ایک اور بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان کو آزاد کرانے کے لئے جنگیں بھی لڑی گئیں اور تحریکیں بھی چلتی رہیں۔ 90برسوں کے اس طویل عرصے میں کئی اہم موڑ آئے۔ اس میں جلیاں والا باغ بھی ہے اور کاکوری کا مشہور واقعہ بھی۔ اس میں ڈانڈی مارچ، عدم تعاون کی تحریک، چوری چورا حادثہ، سائمن کمیشن کا بائکاٹ اور انگریزوں بھارت چھوڑو تحریک جیسے کئی اہم موڑ ہیں۔ لیکن ہر موڑ پہ خواتین ضرور نظر آتی ہیں۔ کہیں تو خواتین خود گھوڑے پر سوار ہو کر میدان جنگ میں لڑتی ہیں اور کہیں تحریک کو سمت و رفتار عطا کرنے میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا استعمال کرتی ہیں۔ کچھ خواتین قلم کی طاقت کا سہارا لیتی ہیں۔
1915میں موہن داس کرم چند گاندھی ساؤتھ افریقہ سے ہندوستان واپس آئے اور تحریک آزادی کی لَو کو تیز کرنے کی کشش کی۔ اس کوشش کے نتیجے میں ہوم رُول کی باتیں ہوئیں اور 1920میں Non Coopration Movementیعنی عدم تعاون کی تحریک شروع ہوئی۔ اس زمانے میں نہ صرف مہاتما گاندھی کی شریک زندگی کستوربہ نے ان کا ساتھ دیا بلکہ سرلا دیوی، موتھو لکشمی، سوشیلا نائر، راجکماری امرت کور،سچیتا کرپلانی اور ارونا آصف علی جیسی خواتین نے ہر قدم پہ گاندھی جا کا ساتھ دیا۔ اور عدم تعاون کی تحریک کو گاؤں گاؤں تک پہنچانے کے لئے خواتین کی منڈلی تیا ر کی۔ 1930میں ڈانڈی مارچ اور نمک ستیاگرہ کے بعد انگریزوں نے زیادہ تر سیاسی رہنماؤں کو قید کر لیا۔ لیکن نہ صرف شہروں میں بلکہ قصبات اور گاؤں میں بھی خواتین نے مورچہ سنبھال لیا۔ اور تحریک کو ناکام نہیں ہونے دیا۔ اس وقت کے مشہور اردو اخبار ”مدینہ بجنور“ میں بابو رام درس پانڈے نے لکھا کہ ہندوستان کی بیٹیوں نے مورچہ سنبھال لیا ہے اس لئے اب انگریزوں کو ہندوستان سے جانا ہی ہوگا۔
تحریک آزادی کے تمام اہم مراحل پہ جب ممتاز ہندوستانی رہنماؤں کو جیل میں ڈال دیا گیا تو خواتین نے آگے بڑھ کر مورچہ سنبھالا۔ بہت کم خواتین کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے، زیادہ تر خواتین گم نامی کے اندھیروں میں کھو گئیں۔ ایسی خواتین کی فہرست کافی طویل ہے جنھوں نے مادر وطن کی آزادی کے لئے اپنے جان مال کی قربانی دی۔ جنگ آزادی میں ہمارے ملک کی ہزاروں خواتین نے بڑی بہادری اور دلیری سے حصہ لیا۔مقام افسوس ہے کہ ہم جھانسی کی رانی لکشمی بائی، بیگم حضرت محل، سروجنی نائڈو، کستوربہ، وجئے لکشمی پنڈت، ارونا آصف علی اور سچیتا کرپلانی جیسی کچھ خواتین کا نام ہی ہمارے سامنے آتا ہے۔ ضرورت اس بات کہ ہے کہ ہم ان تمام خواتین کی قربانیوں کو یاد کریں اور نئی نسل کو ان کی بے مثال قربانیوں سے آگاہ کراتے رہیں۔
کِتور رانی چینما، بیگم رویکا، جھلکاری بائی، اُوما بائی کُنڈا پور، ساوتری بائی پھولے، بی اماں، کیپٹن لکشمی سہگل، مُو ل متی، رفیقہ بیگم، جانکی اتھی ناہپن، امّو سوامی ناتھن، متنگینی ہاجرا، نیلی سین گپتا، محمدی بیگم، اور رانی گائڈنلو، جیسی خواتین کا ذکر بہت کم ہوا ہے۔ لیکن ان خواتین کی قربانیاں سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل تھیں۔ 26جنوری 1915کو منی پور میں پیدا ہونے والی رانی گائڈنلو کا ذکر تو بہت ہی کم ملتا ہے۔ نئی نسل اس بات سے بھی ذرا کم ہی واقف ہے کہ شمال مشرقی ریاستوں کی خواتین نے بھی جنگ آزادی میں حصہ لیا ہے۔ رانی صرف 17 سال کی عمر میں انگریزوں کے خلاف تحریک میں شامل ہو چکی تھیں۔ ناگا قبیلے میں انگریزوں کے خلاف تحریک چلانے میں رانی گائڈنلو نے سرگرم حصہ لیا اور گرفتار کی گئیں۔ انھیں چودہ سال کی طویل قید کی سزا ملی تھی۔ انگریزوں کی جیل میں رہ کر بھی اس خاتون کے حوصلے پست نہ ہوئے۔ جیل سے رہائی کے بعد بھی یہ بہادر ناگا خاتون وطن کی آزادی کے لئے لڑتی رہی۔ ایک صرف رانی گائڈنلو کا ذکر ہی کیا یہاں تو تاریخ جنگ آزادی کے ہر صفحے پر خواتین کے کارنامے رقم ہیں۔ کچھ ناموں پہ دھول کی ایک پرت جم گئی ہے۔ کچھ ہماری بے حسی اور کچھ وقت کی ستم ظریفی کی ا ن خو اتین کے ناموں کو بھی بھلا دیا گیا جنھوں نے اپنی پوری زندگی مادر وطن کی خدمت میں لگا دی تھی۔ مادر وطن پہ اپنی زندگی نثار کرنے والی خواتین کو یاد کرنا ہمارا فرض ہے۔ ہندوستان کی جنگ آزادی میں جن خواتین نے قربانیاں پیش کی ہیں ان کے نام اور کام کو زندہ رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں ہے کہ ہندوستان کی جنگ آزادی میں خواتین کا کردار بہت نمایاں اور ممتاز رہا ہے۔ ان تمام خواتین کی قربانیوں کو ملک کے ہر شہری کی جانب سے سلام عقیدت پیش کیا جانا چاہئے۔
(مضمون نگار ڈاکٹر شفیع ایوب، جے این یو نئی دہلی میں درس وتدریس سے وابستہ ہیں).

Recommended