Urdu News

کشمیر کی موجودہ صورت حال پر بعض مین اسٹریم لیڈران کے بیانات افسوس ناک : پروفیسر سوز

کشمیر کی گلیاں


کشمیر کی موجودہ صورت حال پر بعض مین اسٹریم لیڈران کے بیانات افسوس ناک : پروفیسر سوز

سری نگر، 16 فروری (انڈیا نیرٹیو)

سابق مرکزی وزیر پروفیسر سیف الدین سوز کا کہنا ہے کہ کشمیر کے لوگ آئین ہند میں اپنی شناخت کے سلسلے میں جمہوری طریقے سے دفعہ 370 کی بحالی کےلیے جدوجہد کر رہے ہیں، جس دفعہ کو مرکزی حکومت نے غیر آئینی طریقے سے یک طرفہ طور کالعدم کیا ہے۔

 ایک بیان میں پروفیسر سوز نے کہا ’وزیر داخلہ امت شاہ نے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ مرکزی حکومت آئندہ کسی وقت جموں وکشمیر کو اپنا درجہ یعنی یونین ٹریٹری کے بجائے ’ریاست جموںوکشمیر ‘ کا درجہ بحال کرے گی۔ کشمیر کے کچھ مین اسٹریم سیاسی لیڈر بھی کچھ اسی قسم کے سیاسی بیانات دے رہے ہیں ،جس کو میں خلط مبحث سمجھتا ہوں!‘۔

 ان کا کہنا تھا ’اس قسم کے بیانات دراصل کشمیریوں کو اُس حقیقی جدوجہد سے باز رکھنے کی ترغیب ہے، جس کے پس منظر میں کشمیری دفعہ 370 کو بحال کرنے کی جمہوری جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں حال ہی میں کچھ مین اسٹریم لیڈروں کے بیانات بہت ہی افسوس ناک ہیں کیوں کہ وہ بیانات حقیقت میں کشمیر کو اپنی حقیقی جدوجہد سے باز رکھنے کی ایک کوشش ہے‘۔

سابق مرکزی وزیر نے کہا کہ ’ریاست جموں وکشمیر‘ کے مقابلے میں اس کو ایک یونین ٹریٹری کہنا خود مرکزی حکومت کے لیے ایک شرمناک اور افسوسناک بات ہے کیوں کہ ریاست جموں وکشمیر ایک اہم ریاست رہی ہے اور اس کا ایک شاندار ماضی رہا ہے جس کو نہایت ہی بھدے طریقے سے یونین ٹریٹری میں تبدیل کیا گیا تھا۔ تاہم وہ ایک الگ بات ہے‘۔

 انہوں نے کہا ’ریاست جموں وکشمیر کے لوگوں کی حقیقی جدوجہد دراصل اُس آئینی درجے کو بحال کرنا ہے، جو اُن کو ہندستان کے ساتھ آئینی رشتے کو طے کرنے میں پہلی منزل کے طور حاصل ہو گیا تھا، یعنی آئین ہند کی دفعہ 370!‘۔

پروفیسر سوز نے مزید کہا ’اس موقع پر مجھے ہندستان کے نامور دانشور اور سرکردہ قانون دان نانی پالکی والا کی یاد آرہی ہے جس نے ایک وقت ہندستان کی مرکزی حکومت کو للکار کر کہا تھا کہ ’آپ لوگ دفعہ 370 کو کبھی نہیں ہٹا سکتے ہیں ، کیوں کہ اسی دفعہ کے تحت کشمیر کے لوگوں نے ہندستان کے ساتھ اپنا آئینی رشتہ جوڑا تھا۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آتا ہے کہ اس دفعہ کو ہٹا کر کشمیر کا ہندستان کے ساتھ رشتہ کیسے قائم رہ سکتا ہے‘۔

 ان کا کہنا تھا ’دراصل نانی پالکی والا کے ذہن میں کبھی یہ بات نہیں تھی کہ ہندستان کی مرکزی حکومت کبھی بھی یک طرفہ طور اس دفعہ کو ہٹا سکتی ہے کیونکہ یہ بات غیر قانونی بھی ہے اور غیر آئینی بھی ۔

انہوں نے کہا جی ’آج کے دن میں ہندستان کے اُس عظیم دانشور اور قانون دان نانی پالکی والا اور کشمیر کے ہندستان کے ساتھ الحاق کے بارے میں اُس کے خیالات قارئین کی دل چسپی کےلیے پھر سے پیش کرتا ہوں، مجھے پوری امید ہے کہ سپریم کورٹ کے سامنے جب بھی دفعہ370 کے بارے میں بحث ہو گی تو آنجہانی نانی پالکی والا کو یاد کر کے فیض حاصل کیا جائے گا‘۔

واضح ہو کہ پروفیسر سوز کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں بیان دیا کہ کسی وقت بھی جموں و کشمیر کو خود مختار ریاست کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ پروفیسر سوز کہیں اس اعلان کا فائدہ تو نہیں اٹھانا چاہ رہے ہیں؟ کیوں کہ اس سے قبل ان کا کوئی بیان اس طرح کا سامنے نہیں آیا ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مرکزی حکومت جموں و کشمیر کے لیے بہت کچھ بہتر پلان کر رہی ہے۔ جموں و کشمیرمیں اب مرکزی حکومت کی طرف سے خصوصی پیکج دیے جا رہے ہیں تاکہ کشمیری عوام جھوٹے پروپیگنڈہ سے باہر نکل کر اپنی زندگی کو پر سکون بنا سکے۔

Recommended