Urdu News

اردو صحافت میں دبستان لکھنؤ کا کردار بےحد تابناک: پروفیسر اختر الواسع

پروفیسر اختر الواسع

اعظم حسین اعظم کے رسالے”ادب“ پر جاوید اختر علی آبادی کی تحقیقی کتاب کا اجرا

اردو صحافت میں دبستان لکھنو کار کردار درخشاں ہے۔ سید اعظم حسین اعظم نے بطور مدیر لکھنو کی صحافت کو نئی جہات عطا کیں تھیں۔ ان کے رسالے پر آج تحقیقی کام ہونا خوش ا?ئند بات ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر اختر الواسع نے جاوید اختر علی آبادی کی تحقیقی کتاب”اعظم حسین اعظم کا رسالہ ادب“  کی رسم اجرا کے موقع پر کیا۔

آئیڈیا کمیونیکیشنز کے زیر اہتمام جامعہ ملیہ اسلامیہ میں منعقد اس پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس تاریخی رسالے پرتحقیقی کام ہونا نہایت خوش آئند ہے۔ پروگرام میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے انڈیا  اسلامک کلچرل سینٹر کے نائب صدر ایس ایم خان،جبکہ مہمان اعزازی کی حیثیت سے تسمیہ آل انڈیا ایجوکیشنل اینڈ کلچرل سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر سید فاروق نے شرکت کی۔

آئیڈیا کمیونیکیشنز کے ڈائریکٹر آصف اعظمی نے تعارفی کلمات پیش کیا،وہیں اعظم حسین اعظم کی  بیٹی اور معروف افسانہ نگار سطوت زہرہ، صحافی معصوم مرادآبادی، ڈاکٹر شعائر اللہ خان اور ڈاکٹر الف ناظم نے کتاب پر اظہار خیال کیا۔  نظامت کے فرائض شہنواز فیاض نے ادا کیے جبکہ اعظم حسین اعظم کے بیٹے اعظم عباس شکیل نے لوگوں کا شکریہ ادا کیا۔ دیگر اہم شرکا میں احمد عظیم، عادل رشید، نوشاد منظر، شفیع ایوب، مظہر محمود، مشرف حسین صدیقی، امتیاز رومی کے علاوہ بڑی تعداد میں اردو کے اسکالرس اور طلبہ شریک ہوئے۔

ایس ایم خان نے کہا کہ رسالہ ”ادب“ اردو صحافت کی شاندار روایت کا حصہ ہے، اس رسالے پر جاوید اختر علی آبادی کی یہ تحقیقی کاوش نہ صرف اس رسالے کی اہمت سے متعارف کراتی ہے بلکہ اردو کی صحافتی تاریخ اور رجحانات کو سمجھنے میں بھی مدد فراہم کرتی ہے۔ڈاکٹر سید فاروق نے کہا  کہ اردو زبان و ادب کے معماروں کو یاد رکھنا اور ان کی فراموش کردہ کاوشوں کی حفاظت اور ترویج قابل قدر ہے۔ اس کے لیے جاوید اختر علی آبادی مبارکباد کے مستحق ہیں۔

آصف اعظمی نے کہا کہ بیسویں صدی کا نصف اول  اردو صحافت کا روشن ترین دور ہے۔ یہ کتاب ہمیں جہاں ایک طرف اس عہد رزیں کی کچھ جھلکیاں پیش کرتی ہے وہیں اس بات کا پیغام بھی دیتی ہے کہ اگر ہم اردو رسائل وادب کو باقی رکھنا چاہتے ہیں تو ان سے بحیثیت قاری رشتہ استوار رکھنا پڑے گا۔

معصوم مرادآبادی  نے کہا کہ اردو صحافت کے طلبہ کے لیے یہ کتاب بہت مفید و معاون ہے، اس میں شامل اشاریہ پورے رسالے کا خلاصہ پیش کرتا ہے۔ڈاکٹر شعائر اللہ خان نے کہا کہ اعظم حسین اعظم کے اس رسالے کے قلم کاروں  میں  مسعود حسین رضوی ادیب، آغا حشر،امیر احمد علوی اور مرزا محمد عسکری جیسے مشاہیر اردو شامل تھے، ایسے رسالے پر تحقیقی کام گویا اس دور کی تاریخ سمیٹنا ہے۔

 ڈاکٹر الف ناظم نے کہا کہ ایک فراموش شدہ رسالے کی تحقیق بہت مشکل کام ہے، اس کے لیے ڈاکٹر جاوید اختر علی آبادی کو مبارک باد دینا چاہیے۔  صاحب کتاب جاوید اختر علی آبادی  نے کہا کہ رسالہ ”ادب“ نہ صرف تحقیق و تنقید اور زبان و ادب کا ایک نادر مخزن تھا بلکہ اپنے عہد کے ادب، تہذیب، سیاست اور معاشرت کا ترجمان اور عصری تقاضوں کا آئینہ دار تھا، لیکن اس میں مدفون خزائن سے اردو ادب کی تاریخ کوری ہے۔

Recommended