Urdu News

علی سردار جعفری کو ان کے جنم دن پر خراج عقیدت

علی سردار جعفری کو ان کے جنم دن پر خراج عقیدت

<p style="text-align: right;">علی سردار جعفری کو ان کے جنم دن پر خراج عقیدت
Ali Sardar Jafri علی سردار جعفری: شخصیت اور فن

مشہور و معروف ترقی پسند شاعر علی سردار جعفری ۹۲ نومبر ۳۱۹۱ء؁ کو مشرقی یوپی کے بلرام پور میں. ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اتر پردیش کے شمال مشرقی علاقے میں گونڈہ ضلع واقع ہے. جو صدیوں فکر وفن اور شعر و ادب کا گہوارہ رہا ہے۔ لوک کتھاؤں میں گونڈہ بھگوان شری رام کے پُتر لَو کا گؤ چر تھا. جہاں گونڈ قبیلے کے لوگ آباد تھے۔</p>
<p style="text-align: right;">اسی ضلع گونڈہ کے شمالی اور ترائی علاقے میں بلرام پور واقع ہے. جسے فیروز شاہ تغلق کے عہد میں راجہ بلرام سنگھ نے آباد کیا تھا۔ اس علاقے میں بڑے عظیم شاعروں اور فنکاروں نے جنم لیا . جس میں رام چرت مانس کی رچنا کرنے والے گوسوامی تلسی داس، پاتنجلی، گھاگھ کوی، برم بھٹ اور جگت داس کے نام روشن ہیں۔ یہیں اصغر گونڈوی، جگر مراد آبادی، مرزا شوق، اور خواجہ مسعود حسن ذوقی نے اپنا مسکن بنایا. اور یہیں کے ہوکر رہے۔</p>

<h4 style="text-align: right;">بلرام پور سے رشتہ</h4>
<p style="text-align: right;">راجہ بلرام پور خود اردو کے شاعر تھے۔ اپنے دربار کی زینت کے لئے راجہ بلرام پور نے مانک پور سے خلیل مانک پوری، لکھنؤ سے خاندان میر انیس کے چشم و</p>
<p style="text-align: right;">چراغ نوشہ بھیا اور آگرہ سے جعفری گھرانے کے ذہین و متین لوگوں کو بلا کر بلرام پور میں آباد کیا۔ اسی جعفری خاندان میں علی سردار نے جنم لیا۔
بلرام پور، لکھنؤ، دہلی یونیورسٹی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حصول تعلیم کے بعد ممبئی میں سکونت اختیار کی۔ ممبئی کی فلمی دنیا سے وابستگی کے باوجود زندگی کی آخری سانس تک وہ بلرام پور اور لکھنؤ کو نہ بھول سکے۔ شام اودھ کی تمام تر رعنائیاں ان کی یادوں میں رچی بسی رہیں۔ ”نہ جانے کیا کشش ہے بمبئی تیرے شبستاں میں۔ کہ ہم شام اودھ صبح بنارس چھوڑ آئے ہیں“ ان کے والد نے نہ جانے کس مقبول گھڑی میں ان کا نام رکھاتھا کہ انھوں نے ہمیشہ سردار بن کے زندگی بسر کی۔</p>

<h4 style="text-align: right;">نام اور شاعری میں انفرادیت</h4>
<p style="text-align: right;">علی سردار جعفری کی شخصیت اور شاعری کی طرح ان کے نام میں بھی انفرادیت ہے۔ وہ خود بھی اپنے نام کی انفرادیت پہ نازاں تھے۔ اپنے والد سید جعفر طیار جعفری اور چچا سید حیدر کرار جعفری و سید احمد مختار جعفری کو ان چار مصروں میں اس طرح یاد کیا ہے۔
نور نظر احمد مختار ہوں میں لخت جگر حیدر کرار ہوں میں</p>
<p style="text-align: right;">ہیں فتح و ظفر قوت ِبازوِ سردار یعنی پسرِ جعفر طیار ہوں میں</p>

<h4 style="text-align: right;">ترقی پسند تحریک کا کوئی تذکرہ</h4>
<p style="text-align: right;">
اردو میں ترقی پسند تحریک کا کوئی تذکرہ سردار جعفری کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ وہ اردو شعر و ادب کا ایک اہم ستون اور ترقی پسند تحریک کے روح رواں تھے۔ عہد حاضر کے ممتاز نقاد پروفیسر گوپی چند نارنگ نے انھیں ترقی پسندی کے تاج کا نگینہ کہا ہے۔ اپنی ایک تحریر میں پروفیسر نارنگ نے علی سردار جعفری کو ترقی پسندوں کے سب سے بڑے قافلہ سالار کے طور پر یاد کیا ہے۔یوں تو پریم چند اور رگھو پتی سہائے فراق گورکھپوری سے لیکر فیض، مجروح، مخدوم اور احتشام حسین تک ادیبوں اور شاعروں کی ایک کہکشاں موجود ہے۔ لیکن سچ بات یہ ہے کہ سید سجاد ظہیر اور ملک راج آنند کے بعد ترقی پسند تحریک کو سمت و رفتار عطا کرنے میں علی سردار جعفری نے سب سے نمایاں رول ادا کیا ہے۔</p>

<h4 style="text-align: right;">Ali Sardar Jafri سردار جعفری کی مرثیہ نگاری</h4>
<p style="text-align: right;">”۱۴۹۱ ء؁ میں لکھنؤ ریڈیو نے ایک مشاعرہ منعقد کیا جو سارے ہندستان میں بڑے ذوق و شوق سے سنا گیا۔اس کا نام تھا ’نو وارد شعراء کا مشاعرہ‘۔ جوش نے صدارت کی لیکن کلام نہیں سنایا۔ فیض، مخدوم، مجاز،جذبی اور جاں نثاراختر نے میرے ساتھ اس مشاعرے میں شرکت کی۔ن م راشد کسی وجہ سے نہیں آ سکے۔ یہ نئی ترقی پسنداردو شاعری کے سات سیارے تھے جن کی تابناک گردش کا نغمہ آج بھی گونج رہا ہے۔“</p>

<h4 style="text-align: right;">جعفری کی شاعری کا آغاز مرثیہ گوئی سے</h4>
<p style="text-align: right;">
علی سردار جعفری کی شاعری کا آغاز مرثیہ گوئی سے ہوا۔ پھر افسانہ نگاری کی طرف مائل ہوئے۔ ۸۳۹۱ ء؁ میں افسانوں کا مجموعہ ”منزل“ شائع ہوا۔ ۳۴۹۱ ء؁ میں شعری مجموعہ ”پرچم“ ۸۴۹۱ ء؁ میں ”نئی دنیا کو سلام“ ۰۵۹۱ ء؁ ”امن کا ستارہ“ . اور ۱۵۹۱ء؁ میں ”ایشیا جاگ اُٹھا“ شائع ہوکر خواص و عوام میں مقبول ہوئے۔ ان کے علاوہ ”پرواز“ ”خون کی لکیریں“ ”ایک خواب اور“ ”لہو پکارتا ہے“.  اور ”پتھر کی دیوار“ جیسے شعری مجموعوں کو بھی اہل نظر نے بے حد پسند کیا</p>
<p style="text-align: right;">۔نثر میں ان کی تصانیف ترقی پسند ادب، لکھنؤ کی پانچ راتیں، پیغمبران سخن، غالب اور اس کی شاعری، ترقی پسند تحریک کی نصف صدی اور اقبال شناسی کی بھرپور پذیرائی ہوئی۔ سردار جعفری نے دیوان غالب، دیوان میر، کبیر بانی اور پریم وانی جیسی اہم کتابوں کی تدوین و ترتیب کا کام بھی انجام دیا۔ انھوں نے ڈاکیومنٹری فلمیں بنائیں، کہکشاں جیسا مقبول سیریل لکھا اور ”نیا ادب“ جیسے عہد ساز رسالے کی ادارت بھی کی۔</p>

<h4 style="text-align: right;">Ali Sardar Jafri انسان دوستی اور علی سردار</h4>
<p style="text-align: right;">
معروف ترقی پسند نقاد پروفیسر شارب ردولوی نے بجا لکھا ہے کہ انسان دوستی سردار جعفری کے کلام کا بنیادی محور ہے۔ دراصل سردار جعفری کی شاعری تڑپتی اور سسکتی ہوئی انسانیت کا نوحہ ہے۔ ان کے طویل شعری سفر میں جو ایک جذبہ ہر جگہ نمایاں نظر آتا ہے وہ انسان کے کرب اور اس کے مسائل سے ہمددردی کا جذبہ ہے۔ انسان کی مجبوریوں کے بارے میں تقریباً سبھی شعرا نے کسی نہ کسی انداز میں اظہار خیال کیا ہے لیکن سردار جعفری نے جس تسلسل کے ساتھ اس موضوع پر اظہار خیال کیا ہے وہ دوسرے شعرا کے یہاں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ سردار جعفری نے اپنے ایک طویل مضمون میں لکھا ہے کہ انھیں انسانی ہاتھ بہت خوبصورت معلوم ہوتے ہیں۔ جن ہاتھوں کی کاریگری نے دنیاکو حسن جمیل عطا کیا ہو انھیں سلام عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:</p>
&nbsp;
<p style="text-align: right;">
اِن ہاتھوں کی تعظیم کرو
اِن ہاتھوں کی تکریم کرو
دنیا کے چلانے والے ہیں
اِن ہاتھوں کو تسلیم کرو۔
اعجاز ہے یہ ان ہاتھوں کا، ریشم کو چھوئیں تو آنچل ہے
پتھر کو چھوئیں تو بُت کر دیں، کالکھ کو چھوئیں تو کاجل ہے
مٹی کو چھوئیں تو سونا ہے، چاندی کو چھوئیں تو پائل ہے
Ali Sardar Jafri ان ہاتھوں کی تعظیم کرو۔</p>.

Recommended