پروفیسر شہپر رسول جامعہ ملیہ اسلامیہ کی تخلیقی شناخت کا ایک اہم حوالہ ہیں۔ وہ علی گڑھ اور جامعہ کی تہذیب کے حسین سنگم ہیں۔ ان کی نفیس و نستعلیق شخصیت میں ایک مقناطیسی صفت پائی جاتی ہے۔ پروفیسر عبدالرشید ماہر لغت، ماہر لسانیات اور معتبر محقق ہیں۔ ان خیالات کا اظہار صدارتی خطاب کے دوران صدر شعبہئ اردو پروفیسر شہزاد نجم نے شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام پروفیسر شہپر رسول اور پروفیسر عبدالرشید کی سبکدوشی پر الوداعی جلسے میں کیا۔ پروفیسر قاضی عبید الرحمن ہاشمی نے کہا کہ پروفیسر شہپر رسول نے شعبے کی علمی و ادبی سرگرمیوں میں نہایت فعال کردار ادا کیا ہے۔ بطور خاص ڈی آر ایس پروگرام، سمینار اور موقر ادبی شخصیات کے خطبات کے انعقاد میں ان کا رول بہت کلیدی رہا ہے۔
پروفیسر عبدالرشید بہت کم گو لیکن باریک تحقیقی نظر کے حامل ہیں۔ ان کے یہاں ایک خاص قسم کا رکھ رکھاؤ اور وضع داری ہے جو اب اس زمانے میں تقریباً ناپید ہے۔ پروفیسر شہناز انجم نے شہپر رسول سے اپنے عزیزدارانہ اور دیرینہ تعلقات کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ہم دونوں نے پروفیسر عنوان چشتی کی نگرانی میں پی ایچ۔ ڈی کیا ہے۔ شہپررسول کا تحقیقی مقالہ ’اردو غزل میں پیکرتراشی‘ ایک حوالے کی کتاب ہے۔ پروفیسر عبدالرشید دہلوی تہذیب کے زندہ مرقع ہیں۔ ان کا غیر معمولی علمی شغف متاثر کن ہے۔ ڈاکٹر سہیل احمدفاروقی نے شعبہئ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کو ایک خاندان قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہاں کسی قسم کی سطحی سیاست نہیں ہوتی ہے۔ یہاں کے تمام اساتذہ افراد خانہ کی طرح ہوگئے ہیں۔
پروفیسر شہپر رسول نے محبت و یگانگت کی یہ فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ پروفیسر عبدالرشید بھی انھیں میں سے ہیں جن کے مزاج میں خاک ساری، ملنساری اور تواضع کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ پروفیسر احمد محفوظ نے نم دیدہ اور جذباتی لہجے میں کہا کہ پروفیسر شہپر رسول کا شعبے سے رخصت ہونا میرے لیے ذاتی طور پر ایک جذباتی لمحہ ہے۔ انھوں نے ہر موڑ پر جس طرح ہمیں سہارا دیا اور محبتوں سے نوازا وہ ہماری زندگی کے لیے نہایت قیمتی اثاثہ ہیں۔ پروفیسر عبدالرشید میرے یار غار ہیں۔ بے پناہ شخصی خوبیوں کے مالک ہیں۔ ان کے استغراق اور انہماک کو دیکھتے ہوئے انھیں فنا فی العلم کہنا بے جا نہ ہوگا۔پروفیسر کوثر مظہری نے شہپر رسول سے اپنے گہرے روابط کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ہمیشہ ہمیں عزیز رکھا۔ ہماری حوصلہ افزائی اور بہتر رہنمائی کی۔ شعبہئ اردو سے ان کی وابستگی رسمی نہیں تھی بلکہ یہاں کی ادبی ماحول کو ثروت مند بنانے میں انھوں نے نہایت پُرخلوص کوششیں کیں۔ پروفیسر خالد جاوید نے کہا کہ شہپر رسول ان لوگوں میں سے ہیں جن سے مل کر زندگی سے محبت سی ہوجاتی ہے۔ شاعری کے حوالے سے بلاشبہ وہ عالمی شہرت و مقبولیت کے حامل ہیں۔ پروفیسر عبدالرشید جیسی مخلص، بے لوث اور منسکرالمزاج شخصیات میں نے اپنی زندگی بہت کم دیکھی ہیں۔ پروفیسر ندیم احمد نے کہا کہ پروفیسر شہپررسول ہم سب کے سرپرست ہیں۔ شعبے میں ان کے ہونے سے ہم بہت سی الجھنوں سے محفوظ رہتے تھے۔ ان کا مشورہ حرف آخر کا درجہ رکھتا تھا۔
پروفیسر عبدالرشید بے حد خوش خلق، مہمان نوازاور اقدار پسند ہیں۔ڈاکٹر عمران احمد عندلیب نے پروفیسر شہپر رسول کے حوالے سے کہا کہ وہ علی گڑھ کی متحرک تصویر ہیں۔ ان کی خورد نوازی نے ہمیں ان کا اسیر کر رکھا ہے۔ پروفیسر عبدالرشید جتنے اچھے عالم ہیں اس سے بھی زیادہ اچھے انسان ہیں۔ڈاکٹر سرورالہدیٰ نے پروفیسر شہپر رسول کو علی گڑھ کلچر کا مجسم نمونہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کو اختر انصاری، شہریار، وحید اختر، آل احمد سروراور قاضی عبدالستار وغیرہ کی صحبت سے بہت فیض پہنچا۔ پروفیسر عبدالرشید کم گو ضرور ہیں لیکن ان کی علمیت سے انکار ممکن نہیں۔یہی وجہ ہے کہ انھیں شمس الرحمن فاروقی، شمیم حنفی اور سی ایم نعیم جیسے ممتاز ادیب و دانشور قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ڈاکٹر خالد مبشر نے نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے کہا کہ بحیثیت استاذ پروفیسر شہپر رسول محض کتاب خواں نہیں ہیں بلکہ وہ کلاس میں لفظوں کو تصویر کردیتے تھے اور اس پیکر تراشی میں وہ یکتائے روزگار ہیں۔ پروفیسر عبدالرشید خالص محقق اور غیرمعمولی عز و انکسار کی حامل شخصیت ہیں۔ ڈاکٹر سید تنویر حسین نے پروفیسر شہپر رسول کی ذاتی نوازشوں اور احسانات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ آج میں جو کچھ ہوں اس میں ان کا بھی اہم حصہ ہے۔ پروفیسر عبدالرشیدنہایت شائستہ مزاج اور معاونت پسندانہ فطرت کے حامل ہیں۔ انھوں نے ہر قدم پر میری رہنمائی کی۔ ڈاکٹر ثاقب عمران نے اظہار تشکر میں کہا کہ پروفیسر شہپر رسول میرے لیے مربی کا درجہ رکھتے ہیں اور پروفیسر عبدالرشید سے بھی ہمیں علمی فیض حاصل ہوا ہے۔ الوداعی جلسے میں پروفیسر شہپر رسول اور پروفیسر عبدالرشید کی خدمت میں سینئر اساتذہ کے علاوہ ڈاکٹر جاوید حسن اور ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی نے گلدستے، شال، ڈائری قلم اور ایک اٹیچی بطور تحفہ پیش کیا۔ پروگرام کا آغاز ڈاکٹر شاہ نواز فیاض کی تلاوت سے ہوا۔ اس موقع پر ڈاکٹر سمیع احمد، ڈاکٹر محمد آدم اور ڈاکٹر آس محمد صدیقی کے علاوہ شعبے کے منتخب ریسرچ اسکالر شریک تھے۔