فراق گورکھپوری: ہندی اردو اور ہندوستان
فراق گورکھپوری 28اگست 1896کو مشرقی اتر پردیش کے تاریخی شہر گورکھپور میں پیدا ہوئے۔ ابتدا ئی تعلیم گورکھپور میں ہوئی۔ اردو گھر کی زبان تھی۔ ان کے والد منشی گورکھ پرساد عبرت گورکھپوری اپنے زمانے کے اچھے شاعر تھے۔ فراق نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ الہ آباد یونیورسٹی میں انگریزی زبان و ادب کے استاد تھے۔ فراق اپنی زندگی میں ہی ایک افسانوی کردار بن چکے تھے۔ مشہور تھے، مقبول تھے، متنازع تھے۔ انھیں پسند کیا جاتا تھا، کچھ لوگ انھیں نا پسند بھی کرتے تھے لیکن انھیں کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا تھا۔ زندگی بھر وہ لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب رہے۔ فراق اپنے اصل نام رگھو پتی سہائے سے بہت کم جانے جاتے تھے۔ پروفیسر افغان اللہ خاں گورکھپور یونیورسٹی میں اردو کے استاد تھے۔ انھوں نے فراق کی زندگی میں فراق پہ مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ انھیں فراق سے ملنے، باتیں کرنے اور بحث مباحثہ کا موقع بھی ملا تھا۔ پروفیسر افغان اللہ خاں کہا کرتے تھے کہ جب کبھی فراق کے سامنے ان کے اصل نام رگھو پتی سہائے کا ذکر آیا تو وہ بڑی معصومیت سے پوجھتے تھے کہ یہ کون ہے؟ گویا انھوں نے ہمیشہ خود کو فراق کے روپ میں ہی دیکھا وہ کبھی بھی اپنے آپ کو رگھوپتی سہائے کے روپ میں نہیں دیکھ پائے۔
فراق ذہین تھے، اپنی طالب علمی کے زمانے میں بہت اچھے اور ذہین طالب علم سمجھے جاتے تھے۔ جنگ آزادی میں ان کا رول بھی رہا۔ ان کا تقرر ڈپٹی کلکٹر کے عہدے کے لئے ہوا تھا لیکن اس وقت ملک میں انگریزی حکومت کے خلاف ایک تحریک چل رہی تھی، اس لئے فراق نے ڈپٹی کلکٹر بن کر انگریزی حکومت کا ایک حصہ بننے کے بجائے تحریک آزادی میں شریک ہو کر اپنے ملک کی خدمت کا فیصلہ کیا۔ وہ کچھ زمانے تک پنڈت جواہر لعل نہرو کے اسسٹنٹ سیکریٹری کے طور پر بھی کام کیا۔ جس زمانے میں تحریک آزادی میں حصہ لینے کے سبب وہ آگرہ جیل میں قید تھے، وہاں اردو اور ہندی کے کئی قابل ذکر شاعر و ادیب بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے۔ اسی آگرہ جیل میں ان تمام سیاسی قیدیوں نے ایک طرحی مشاعرے کی بنا ڈالی۔ اسی جیل کے مشاعرے میں فراق نے یہ مشہور شعر پڑھا تھا۔
اہل زنداں کی یہ محفل ہے ثبوت اس کا فراق
کہ بکھر کے بھی یہ شیرازہ پریشاں نہ ہوا
فراق اپنی تنک مزاجی اور ایک طرح کی ضد کی وجہ سے بھی خاصی شہرت رکھتے تھے۔ ان کی خانگی زندگی کی پریشانیاں سب کو معلوم تھیں۔ وہ خود اپنے بارے میں افواہوں کو ہوا دیتے تھے۔ کسی بھی طرح فراق کو لائم لائٹ میں رہنا تھا۔ وہ شاعر تھے، انگریزی کے استاد تھے، نقاد تھے اور ہندوستانی فکر و فلسفہ پہ گہری نظر رکھنے والے ایک دانشور تھے۔ اپنے جملوں کی تیزی کی وجہ سے بھی پہچانے جاتے تھے۔ وہ لوگوں کو چونکانے کا ہنر جانتے تھے۔ مشاعروں میں شرکت کرتے تو اسٹیج پر کچھ نہ کچھ ایسی حرکت ضرور کرتے تھے جس سے لوگوں کا دھیان ان کی طرف متوجہ ہو۔ پٹنہ کے ایک مشاعرے میں فراق صاحب شریک تھے۔ بڑا مشاعرہ تھا، ملک کے نامور ناظم مشاعرہ ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد نظامت فرما رہے تھے۔ دو چار شاعروں کے کلام پڑھنے کے بعد فراق صاحب اشارہ کرنے لگے کہ اب ان کو کلام پڑھنے کے لئے بلایا جائے۔ ملک زادہ منظور احمد نے کہا کہ حضور یہ آپ کا مقام نہیں ہے۔ ابھی جونئیر شعرا اپنا کلام سنا رہے ہیں۔ لیکن جب فراق نے بار بار ضد کی کہ انھیں ابھی پڑھوایا جائے تو مجبوراً ملک زادہ منظور احمد نے فراق کوآواز دی۔ فراق صاحب مائک پہ آئے۔ اطمنان سے کلام سنایا۔ اور اعلان کر دیا کہ حضرات آپ ایشیا کے سب سے بڑے شاعر کا کلام سن چکے، اب اپنے اپنے گھر کو واپس جائیں۔ اور ہاں یہ بھی یاد رکھیں کی جو قومیں رات بھر مشاعرہ سنتی ہیں وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتیں۔ ظاہر سی بات یہ فراق کا یہ اعلان ناظم مشاعرہ ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد اور منتظمین مشاعرہ کے لئے کسی تازیانے سے کم نہ تھا۔
فراق کو عام طور پر ہندی مخالف سمجھا جاتا ہے۔ دراصل وہ خود اپنی ایک شناخت ہندی مخالف کی بنانے میں پیش پیش تھے۔ وہ اکثر اپنی گفتگو میں ہندی کو گنواروں کی بھاشا کہہ دیا کرتے تھے۔ ہندی والے انھیں برا بھلا کہتے اور فراق اس سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ اس زمانے میں ہندی کے سب سے بڑے کوی سوریہ کانت ترپاٹھی نرالا کو فراق صاحب اکثر الہ آباد مین اپنے گھر بلاتے اور ان کی دعوت کرتے، ان سے ان کا ہندی کلام سنتے۔ ہاں یہ بھی سچ ہے کہ نرالا اور فراق میں اکثر ایسی بحثیں ہوتیں کہ بات لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی تھی۔ اس طرح فراق نے ہندو مائیتھا لوجی کو نہ صرف اپنی شاعری میں پیش کیا ہے بلکہ اپنی تنقید میں بھی انھوں نے دیومالاؤں کی بات کی ہے۔ اپنی شہرت کی دولت کو سنبھالے ہوئے فراق 3مارچ 1982کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔.