اردو کی خدمت کے نام پر ہر سال ہزاروں ایوارڈ دیے جاتے ہیں،پھر بھی اردو کا دم نکلتا جارہا ہے
عبدالغفارصدیقی
علامہ اقبالؒ کے یوم پیدائش کی مناسبت سے ہر سال نو نومبرکو ”عالمی یوم اردو“ منایا جاتا ہے۔ان تقریبات کا اہتمام غیرسرکاری تنظیموں کی جانب سے مختصر پیمانے پرشروع کیا گیا تھا۔البتہ آج بڑے پیمانے پر اردو ڈے منایا جانے لگا ہے۔یہ قابل مبارک باد ہے اور ائق تحسین ہے۔
یوم اردو کی تقریبات سے کہیں نہ کہیں اردو کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔اس کے بقا کی فکر کی جاتی ہے۔کہیں مشاعرے ہوتے ہیں،کہیں سیمنار و سمپوزیم منعقد ہوتے ہیں،اس طرح سرکاروں کے کان تک بھی اردوکا لفظ پہنچ جاتا ہے۔
البتہ اس شور سے پائیدار نتائج حاصل نہیں ہوتے۔ اس موقع پر پورے ملک میں اردو کے نام پر ہزاروں ایوارڈ اردو کے خادموں کو دیے جاتے ہیں،لیکن اردو کا حال روز بروز خستہ ہوتا جارہا ہے۔
یوم اردو پر جہاں اردو سے محبت کرنے والے اس کے تن مردہ پر آنسو بہاتے ہیں وہیں اس سے نفرت کرنے والے اردو کو مٹانے کے لیے عملی منصوبے بناتے ہیں۔اس لیے اردو سے محبت کرنے والوں اور اس کے بقا و دوام کے فکرمندوں سے گزارش ہے کہ اس موقع پر کچھ متعین اہداف کے ساتھ عملی منصوبے بنائیں۔ہر سال ان اہداف کا جائزہ لیں۔اس طرح امید ہے کہ اردو زندہ ہوجائے گی۔
آپ اس غم میں اپنی جان نہ گھلا ڈالئے کہ اردو مٹ جائے گی۔مجھے اس بات کا یقین ہے کہ اردو زبان دنیا میں حشر تک باقی رہے گی۔اس لیے کہ یہ ایک ملک کی سرکاری زبان ہے۔اُس ملک میں الحمد للہ اس زبان میں بہت کچھ موجود ہے۔
اس کی ترویج و اشاعت پر وہاں سرکاریں کام کررہی ہیں،یہ وہاں کے افراد کے روزگار کا سبب ہے۔اس لیے ہمیں اس بات کی فکر نہیں کرنا چاہئے کہ اردو ختم ہوجائے گی۔ اس ملک کے علاوہ بھی دنیا کے ہر ملک میں اردو بولنے والے موجود ہیں،مصر سے لے کر امریکہ و برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں اردو زبان کی تعلیم ہورہی ہے۔
البتہ ہمارے اپنے دیار سے،اپنے شہر اور دیہات سے،اپنے گلی کوچوں اور گھروں سے اردو کا جنازہ نہ اٹھ جائے اس کی فکر کرنا چاہئے۔اردو کی بقا کے لیے چند عملی تجاویز حاضر خدمت ہیں۔عالمی یوم اردو کے موقع پر ان تجاویز کو سامنے رکھ کر منصوبہ سازی کی جاسکتی ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ذہن نشین کرلیجیے کہ تمام زبانیں اللہ کی تخلیق کردہ ہیں۔کسی زبان کو کسی زبان پر فوقیت حاصل نہیں ہے۔انسان کو اپنا مافی الضمیر ادا کرنے کے لیے قوت گویائی دینے والے نے ہی حروف و الفاظ بھی عنایت فرمائے ہیں۔
اللہ ہر زبان جانتا ہے اور سمجھتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ ”اس (اللہ) کی نشانیوں میں سے زمین آسمان کی تخلیق اور تمہاری زبانوں اور رنگتوں کا مختلف ہونا ہے،بے شک اس میں علم والوں کے لیے نشانیاں ہیں“ (سورہ روم آیت نمبر 22)۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں کسی زبان سے بھی نفرت نہیں کرنا چاہئے، کسی بھی زبان کو سیکھنے اور بولنے میں عار نہیں محسوس نہیں کرنا چاہئے۔بلکہ ایک داعی قوم ہونے کی حیثیت میں مختلف زبانیں سیکھنا چاہئیں۔
نبی اکرم ﷺ نے صحابہ ؓ کواپنے دور میں اس وقت کی مروجہ زبانیں سیکھنے کی ہدایت فرمائی تھی۔اگر عربی زبان کا تقدس دوسری زبانوں کے بولنے میں حائل ہوتا تو حضور اکرم ﷺ ایسا کیوں کرتے۔ہمیں بھی اپنے ملک کی زبانوں کو سیکھنا چاہئے۔
سوال یہ ہے کہ پھر اردو کی بقا کی کوشش کیوں کریں؟اس کا جواب یہ ہے کہ اس زبان میں ہمارا تاریخی اور علمی سرمایہ موجود ہے۔ایک وقت تھا کہ جب تک ہم عرب کی حدود میں رہتے تھے تو ہمارا دینی وادبی سرمایہ عربی میں تھا،اس کے بعد فارسی میں منتقل اور تخلیق ہوا۔فارسی کے بعد اردو میں منتقل ہوا اور تخلیق ہوا۔
موجودہ وقت میں مسلمانوں سے متعلق معلومات کا بڑا ذخیرہ اردو میں ہے،اس ذخیرے اور علمی ورثے کی حفاظت کا تقاضا ہے کہ ہم اردو زبان کی حفاظت کریں۔اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ شمالی ہندوستان میں اردو ہماری شناخت ہے۔اگر کہیں اردو میں سائن بورڈ لگا ہے تو سمجھ لیجیے کہ یہ مکان یا دوکان مسلمان کی ہے۔شناخت کی حفاظت بھی ایمان کی حفاظت کی طرح ضروری ہے۔
اسی لیے نبی اکرم ﷺ نے اہل ایمان کو بعض ظاہری چیزوں میں بھی یہود سے الگ طرز اختیار کرنے کی ہدایت کی تھی۔مثال کے طور پر اس وقت لوگ مونچھ داڑھی دونوں بڑھاتے تھے،حضور ؐ نے ہدایت کی کہ مونچھیں ترشوائی جائیں،اس کا سبب بھی بتایا تاکہ تم الگ پہچانے جا سکو۔شمالی ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ اردو بولتے ہیں،اپنی پہچان کا تحفظ ضروری ہے۔تیسرا جواب یہ ہے کہ زبان تہذیب کے اظہار کا ذریعہ ہے۔
وہی تہذیبیں زندہ رہیں گی جن کی زبانیں زندہ رہیں گی اورتہذیبوں کا غلبہ قوموں کے غلبہ کی راہ ہموار کرتا ہے۔آپ کی تہذیب جب دوسرے لوگ اختیار کرتے ہیں تو وہ عملا یہ اعلان کرتے ہیں کہ آپ سے وابستہ ہر چیز اچھی ہے۔
اس کو آپ اس طرح دیکھیے کہ جب مسلمان یہاں آئے تو ان کی حکومت کے قیام سے پہلے لوگوں نے ان کی تہذیب قبول کی،ان کا لباس،ان کے نشست و برخاست اور خوردو نوش کے طریقے اپنائے،ان کا لباس پہنا۔
آزاد بھارت میں ایک طویل عرصے تک صدر جمہوریہ شیروانی زیب تن کرتے رہے،بلکہ ٹوپی بھی لگاتے رہے،یہ اسی تہذیبی غلبے کا اثر تھا۔لیکن اب جب سے آپ کی تہذیب کو مٹانے والے غالب ہوئے تو شیروانی نظر نہیں آتی۔زبانوں کے انہیں اثرات و اہمیت کی وجہ سے مخالفین اس کو مٹانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔
اردو کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں اس کو استعمال کریں،چیزیں وہی محفوظ رہتی ہیں جو استعمال میں رہتی ہیں،آپ استعمال کرنا چھوڑدیجیے،کچھ دنوں بعد اچھی خاصی مشین بھی زنگ آلود ہوجاتی ہے۔
اردو کے الفاظ بولیے۔خوش قسمتی ہے کہ مٹانے کی لاکھ کوششوں کے بعد بھی بول چال کی حد تک اردو باقی ہے۔حکومت و اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی جب تقریر کرتے ہیں تو کہیں نہ کہیں اردو کا لفظ ضرور بول جاتے ہیں۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں کے وہ علاقے جہاں اردو کا رواج رہا ہے،وہاں اردو کی جڑیں کافی گہری ہیں۔بولنے کے ساتھ ساتھ اردو لکھیں۔واٹس اپ پیغامات اردو میں بھیجیں۔سرکاری دفاتر میں اردو میں درخواستیں دیں۔
اردو سیکھنے اور سکھانے کے لیے اردو تعلیم کے مراکز قائم کریں۔اس کے لیے ہر مسجد میں اردو کی تعلیم کا مرکز بنایا جاسکتا ہے،امام صاحب کو کچھ معاوضہ دے کر ان کا وقت لیا جاسکتا ہے۔جو لوگ اردو جانتے ہیں وہ اپنے محلہ میں اردو سکھانے کا سینٹر شروع کرسکتے ہیں۔
مشاعروں پر لاکھوں روپے خرچ کرنے والے اگر دس بیس ہزار روپے ان مراکز پر خرچ کردیں تو پورے محلہ کو اردو سکھاسکتے ہیں۔اپنے سائن بورڈ اردو میں بنوائیں۔
جہاں دوسری زبان میں لکھیں وہیں اردو میں بھی ضرور لکھیں۔اپنے گاؤں اور شہروں کو اردو گاؤں اور اردو شہر بنانے کا عزم کریں،چوراہوں پر اردو کے بورڈ لگائے جائیں۔اپنے گھروں پر اپنے نام کی تختی اردو میں لگائیں۔یہ چھوٹے کام ہیں لیکن ان کے نتائج بڑے ہیں۔
حکومت سے اردو کی بازیابی کی درخواست کی جائے۔جہاں جہاں اردو کو دوسری زبان کا درجہ حاصل ہے وہاں اردو کو اس کا قانونی حق دلوانے کے لیے جد جہد کی جائے۔اس پر بھی پیسہ خرچ کرنا باعث ثواب ہے۔
اردو کے نام پر جو اساتذہ سرکاری اسکولوں میں مقرر ہیں وہ اپنی ذمہ داری اور جواب دہی کو سمجھیں،جواب دہی سے میری مراد حکومت کو جواب دہی نہیں،بلکہ اللہ کو بھی انھیں جواب دینا ہے۔جس مضمون کی نسبت سے ان کا گھر چلتا ہے،اس مضمون کے ساتھ ناانصافی ان کے لیے تباہی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔
اعزازات اور ایوارڈز کے نام پر معاف کیجیے گا بڑی حد تک چاپلوسی کا دخل ہے۔آج کل وہ لوگ ایوارڈز لے جاتے ہیں جن کا کوئی کام نہیں ہوتا اور مخلصین بے نام و نشان رہ جاتے ہیں۔اس ضمن میں اخلاص سے کام لیا جائے۔
حوصلہ افزائی کے نام پراگر اعزاز دینا ہی ہیں تو مستحقین کو ہی دیے جائیں۔اردو کے رسائل و اخبارات بھی دم توڑ رہے ہیں۔انھیں خریدار میسر نہیں،انھیں سرکاری مراعات حاصل نہیں،انھیں اشتہارات نہیں مل رہے ہیں،ان کے ساتھ ڈٖاک خانے کا نظام بھی تعصب برت رہا ہے۔
ان امور پر بھی غور کرنے اور مناسب لائحہ ئ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔جب تک عملی اقدامات نہیں کیے جائیں گے۔اردو کی مسیحائی کا دم بھرنے والے جب تک اہداف متعین نہیں کریں گے اور ان اہداف کے حصول کی سنجیدہ کوشش نہیں کریں گے کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…