<h4 style="text-align: right;"> وہ گاؤں کا شاعر نظیر جیسا تھا</h4>
<p style="text-align: right;">Urdu Poet Bekal Utsahi
بیکل اتساہی کو اتساہی لقب پنڈت جواہر لعل نہرو نے دیا تھا۔ اتساہی 92سال کی طویل عمر پا کر 3دسمبر 2016کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ بیکل صاحب مشاعروں میں بے پناہ مقبول رہے۔ ان کی شاعری میں گاؤں کی سوندھی مٹّی کی خوشبو تھی۔ وہ بلرام پور کی اس مٹّی میں پلے بڑھے تھے جس کی اَوَدھی میں مٹھاس ہی مٹھاس ہے۔ اس بلرام پور پہ مشہور ترقی پسند شاعر علی سردار جعفری بھی نازاں تھے۔ سردار جعفری اکثر اپنی تقاریر میں بلرام پور کا ذکر کرتے ہوئے گوسوامی تلسی داس. اصغر گونڈوی، جگر مراد آبادی اور اٹل بہاری واجپائی کو یاد کرتے۔</p>
<p style="text-align: right;">مشرقی یو پی کا یہ علاقہ ترائی کا علاقہ کہلاتا ہے۔ مشرق میں گورکھپور اور مغرب میں لکھنؤ واقع ہے۔ شمال میں نیپال اور ہمالہ کی چوٹیاں نظر آتی ہیں۔ اسی جغرافیائی خطے میں محمد شفیع خان پیدا ہوئے۔ جو بعد میں بیکل وارثی اور پھر بیکل اتساہی بن کر علم و فن کی دنیا میں چھائے۔</p>
<h4 style="text-align: right;">
مشاعروں میں مقبولیت کا راز</h4>
<p style="text-align: right;">
پچاس سال سے زیادہ عرصے تک بیکل اتساہی مشاعروں کے اسٹیج پر چھائے رہے۔ ان کا اپنا خاص ترنم تھا۔ لہک لہک کے گیت پڑھتے تھے تو گویا کھیت میں دھان کی بالیاں رقص کرنے لگتیں۔غزل، گیت، دوہا، قطعہ، رباعی، نظم، گویا ہر صنف میں طبع آزمائی کی۔ جس ترنم کے دم پہ نصف صدی انھوں نے مشاعروں پہ راج کیا۔ اسی ترنم کو نشانہ بھی بنایا گیا۔ کچھ لوگوں نے الزام لگایا کہ بیکل گلے بازی کے دم پہ مشاعروں میں کامیاب رہے۔</p>
<h4 style="text-align: right;">
شاعری یا گلے بازی پہ پروفیسر خواجہ اکرام کی رائے</h4>
<p style="text-align: right;">
لیکن این سی پی یو ایل کے سابق ڈائریکٹر، ممتاز ناقد و ادیب اور جے این یو کے ا ستاد پروفیسر خواجہ اکرام کی رائے ذرا مختلف ہے۔ پروفیسر خواجہ اکرام کا کہنا ہے کہ ترنم اپنے آپ میں کوئی عیب تو نہیں؟ اگر عمدہ کلام ترنم کے ساتھ پیش کیا جائے تو سامعین پہ جادو سا اثر ہوتا ہے۔ اپنے زمانے میں جگر مراد آبادی کا جو جادو چلا اس میں ترنم کا بھی رول تھا۔ لیکن آج کون کہہ سکتا ہے کہ جگر کی شاعری وقتی اور ہنگامی شاعری تھی۔</p>
<p style="text-align: right;">اسی طرح خمار بارہ بنکوی اور پروفیسر کلیم عاجز بھی مشاعروں میں خوب سنے جاتے تھے۔ ان دونوں نے اپنے ترنم کا جادو جگایا۔ لیکن خمار اور کلیم عاجز دونوں بہترین شاعر تھے۔ پروفیسر خواجہ اکرام نے مزید کہا کہ شہر یار کے پڑھنے کا انداز اچھا نہیں تھا۔ لیکن شاعری میں چمک تھی۔ ڈاکٹر بشیر بدر اور پروفیسر وسیم بریلوی بھی اپنے ترنم سے جانے اور پہچانے گئے۔ لیکن بشیر بدر اور وسیم بریلوی کو ان کے کلام کی خصوصیات کی بنا پر زمانہ دیر تک یاد رکھے گا۔</p>
<h4 style="text-align: right;">
بیکل کی شاعری میں گاؤں کی مٹّی کی خوشبو</h4>
<p style="text-align: right;">
سرزمین دکن کے مشہور شاعر و ناقد پروفیسر سلیم محی الدین. نے بیکل اتساہی، ندا فاضلی اور بشر نواز کے ساتھ خوب مشاعرے پڑھے۔ پروفیسر سلیم محی الدین نے بارہا بیکل اتساہی کو ترنم کا جادو جگاتے دیکھا اور سنا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بیکل کے گیتوں اور دوہوں میں مٹّی کی سوندھی خوشبو ہے۔ یہاں تک کہ بیکل کی غزلوں میں بھی وہ سوندھی مٹّی کی خوشبو موجود ہے۔ بیکل کا تعلق گاؤں سے تھا۔ انھوں نے گاؤں کی پگڈنڈیوں سے، کھیت کھلیان سے اپنا رشتہ عمر بھر قائم رکھا۔ وہ بجا کہتے تھے کہ ”نہ مومن و غالب، نہ میر جیسا تھا۔ ہمارے گاؤں کا شاعر نظیر جیسا تھا“۔</p>
<h4 style="text-align: right;">عزیز نبیل کی نظروں میں بیکل اتساہی</h4>
<p style="text-align: right;">بیکل صاحب کو پدم شری ایوارڈ بھی ملا تھا۔ وہ راجیہ سبھا کے ممبر بھی رہے۔ لیکن ایک انداز فقیری ان کی شخصیت کا حصہ رہی۔ وہ اپنی کالی سفید داڑھی اور خاص لباس سے بھی پہچانے جاتے تھے۔ اندرا گاندھی بھی ان کو پسند کرنے والوں میں تھیں۔ اٹل بہاری واجپائی سے بھی ان کے مدھر سمبندھ تھے۔ مشاعروں میں بے پناہ مقبول تھے۔ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ غیر ممالک میں بھی ان کے چاہنے والوں کا بڑا طبقہ موجود تھا۔ لیکن وہ اپنے پاؤں زمین پہ رکھتے تھے۔</p>
<p style="text-align: right;">قطر میں مقیم عہد حاضر کے مقبول شاعر عزیز نبیل کا خیال ہے کہ بیکل صاحب کا دھرتی سے رشتہ غضب کا تھا۔ وہ آسمان شعر وادب پہ چمک رہے تھے لیکن اپنے پاؤں زمیں پر رکھے ہوئے تھے۔ ان کی مقبولیت میں مٹّی کی اس خوشبو کا بڑا رول تھا۔ وہ مقبول ہی نہیں عوام کے محبوب بھی تھے۔</p>
Urdu Poet Bekal Utsahi.