سمندر پار سے شاہ کار افسانوں کے تراجم
کِرن صِدّیقی: کراچی، پاکِستان
گُزشتہ دنوں حسن رضا گوندل صاحب کی مُرتّب کردہ ایک کتاب شائع ہوئی ہے۔ یہ کِتاب اُن کہانیوں میں سے چند کا انتخاب ہے جو سب رنگ میں شاٸع ہوچُکی ہیں۔ کہنے کو تو یہ کہانیاں مغربی کہانیوں کا ترجمہ ہیں لیکن اِس قدر خُوب صورت زُبان اور دِل نشِیں اندازِ بیان ہے کہ ترجمے کے بجائےطبع زاد کہانیاں محسُوس ہوتی ہیں۔
سب رنگ کا آغاز جنوری 1970میں ہوا۔ یہ جب شائع ہونا شروع ہوا تو ابتدا میں اِس کا معیار وہ نہیں تھا جو بعد کے برسوں میں قائم ہوا۔ قاعدہ ہے کہ جب کسی کام کی ابتدا ہو تو اُس میں وہ عُمدگی، پُختگی اور کاملیت نہیں ہوتی جو مُسلسل مشق سے بعد میں پیدا ہوتی ہے۔اِسی لیے ابتدائی کُچھ ماہ تک تو سب رنگ بھی ویسا ہی رسالہ تھا جیسے اُس وقت کے دوسرے پرچے تھے جیسی کہانیاں اُن پرچوں میں شایع ہوتی تھیں ویسی ہی کہانیاں سب رنگ میں بھی شایع ہوئیں لیکن پھر شکیل عادل زادہ نے ایک الگ ہی راہ کا اِنتخاب کِیا۔ اُنھوں نے سب رنگ کو ایک ادبی انداز کے ڈاٸجسٹ کا روپ دینا چاہا تب سب رنگ میں طبع ہونے والے مواد میں تبدیلی آئی جس نے سب رنگ کا روپ ہی بدل ڈالا۔
سب رنگ کا اپنے پڑھنے والوں سے رِشتہ صرف رسالے اور قاری کا نہ رہا بلکہ عاشق اور محبوب کا سا ہوگیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ شکیل عادل زادہ کے سب رنگ کی اشاعت کو ختم ہوۓقریب ڈیڑھ عشرہ ہونے کو آیا لیکن سب رنگ کا اپنے قارئیں سے یہ رِشتہ، یہ تعلق اور یہ نِسبت آج بھی برقرار ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان کِیا گیا کہ ابتدائی چند ماہ کے بعد سب رنگ میں اعلیٰ درجے کا ادب شائع ہونا شروع ہوا۔ اس میں قدیم و جدید، اُردو ادب کے علاوہ عالمی ادب کے تراجم بھی شامل تھے۔
مشرقی اور مغربی ادب کے نام ور مشاہیر کے ناموں کی ایک طویل فہرست ہے جن کی کہانیوں کے تراجم سب رنگ میں شایع ہوئےوہ لوگ جو ادب کا عُمدہ ذوق رکھتے ہیں وہ اِن کہانیوں کے اس طلسم میں ایسے گرفتار ہوۓکہ آج تک اس کی گرفت سے نہیں نکل پائے اور کیوں نہ ہو آخِر لکھنے والے بھی تو درجہ ٔکمال کے مصنف ہیں اب بھلا سمرسٹ ماہم، موپساں، چیخوف، ٹالسٹائی اور او ہنری وغیرہ جیسے لازوال اور لاجواب کہانی کاروں کی مِثال کہاں۔ یہ کہانیاں اِس قدر اعلیٰ درجے کی تھیں کہ ادبِ عالیہ میں نُمایاں حیثیت کی حامل ہیں۔
یہ کہانیاں کہ جِن میں انسانی جذبات اور فطرت کے ہر پہلُو کو بیان کِیا گیا ہے، یہ سحر طراز کہانیاں اپنے پڑھنے والوں کو لفظوں کے اُڑن قالین پہ بِٹھا کے خیال نگر کے اُن مقامات پہ لے جاتی ہیں جو اِس حقیقی دُنیا سے ایک بالکل مختلف مگر بےحد حسِین دُنیا ہے۔ کہانیاں کیا ہیں رنگوں، روشنیوں، خُوشبوٶں، نزاکتوں اور لطافتوں کا ان مول اور بے مِثال خزانہ ہیں۔ اِن سحر آگیں کہانیوں نے قاری کو یوں اپنے شِکنجے میں جکڑا کہ پھر کہیں اور جانے نہ دِیا اور نصف صدی کے باوجود بھی لوگوں کے سب رنگ سے عِشق میں کوٸکمی نہیں آٸ۔ جن لوگوں کا سب رنگ سے تعلق عاشقانہ و نیاز مندانہ ہے انھوں نے یہ تعلقِ قلبی آج بھی اُسی طرح قاٸم رکّھا ہے جیسا کہ پہلے تھا یعنی جب سب رنگ اپنے رنگوں کی تب و تاب سمیت جلوہ فرما تھا۔ ہر سُو اپنی رعنائیاں بکھیرتا تھا اور عُشّاق کے دِلوں کو برماتا تھا۔ ایسے عاشقانِ صادق یقیناً قابلِ قدر اور احترام کے لائق ہیں۔ سب رنگ کے ایسے ہی کُشتگان میں سے ایک حسن رضا گوندل بھی ہیں۔
سب رنگ کے عاشقان تو لاکھوں کی تعداد میں ہیں لیکن حسن رضا گوندل نے تو گویا سب رنگ کے عِشق کو عبادت کا سا درجہ دے دیا۔ وہ ہی انہماک، وہ ہی استغراق، وہ ہی لگن، وہ ہی خُلوص، وہ ہی ذوق، وہ ہی شوق اور وہ ہی بےغرضی جو کسی بھی عاشقِ صادق کے جذبے میں ہوسکتی ہے حسن رضا گوندل کے سب رنگ سے تعلق میں بھی بدرجۂاتم پائی جاتی ہے۔ اُنھوں نے سب رنگ سے اپنے عِشق کی آنچ کسی لمحے مدّھم نہیں پڑنے دی اور خاموشی سے اپنے کام میں منہمک رہے۔ شکیل عادل زادہ کے سب رنگ کے تعطُّل کے بعد انھوں نے سب رنگ کے شُماروں کو محفوظ کرنے کا سوچا اور اِس سلسلے میں جو بن پڑا وہ اُنھوں نے کِیا۔ پہلے تو انھوں نے فیس بک پہ سب رنگ پیج بنایا اور سب رنگ کی کہانیاں وہاں اپ لوڈ کرنا شروع کِیں۔ پھر اُنھوں نے سب رنگ کو پی ڈی ایف کی شکل میں محفوظ کرنا شروع کِیا۔ اِس کام میں اُنھیں تقریباً تین سال کا عرصہ لگا لیکن بہرحال یہ کام بھی پایۂ تکمیل کو پہنچ ہی گیا گرچہ مشکل بہت تھا۔ خواجہ حیدر علی آتش نے شاید حسن رضا گوندل جیسے ہی اولوالعزم لوگوں کی ہِمّت و استقامت کو اپنے اِس شعر میں بیان کیا ہے; ”مُقام تک بھی ہم اپنے پہنچ ہی جائیں گے خُدا تو دوست ہے، دُشمن ہزار راہ میں ہے“ سب رنگ کی اِنفرادیت کی ایک بُہت بڑی وجہ یہ بھی ہےکہ شُروع سے ہی اِس بات کو مدّنظر رکّھا گیا سب رنگ میں شائع ہونے والی ہر تحریر کا معیار بُلند ترین اور زُبان بہترین ہو۔ اِس مُعاملے میں مُدیر و مالک جناب شکیل عادل زادہ نے کبھی سمجھوتہ نہیں کِیا۔ اُنھوں نے ہر اُس تحریر کو شاملِ اشاعت کرنے سے گُریز کِیا جس کے متعلق وہ سمجھتے تھے کہ وہ اُن کے پرچے کے معیار سے ذرّہ برابر بھی کم ہے خُواہ وہ کِتنے ہی بڑے مُصنّف کی کیوں نہ ہو۔
یہی وجہ ہے کہ شُروع کے کُچھ عرصے بعد سب رنگ کی اشاعت میں تعطُّل ضُرور آیا لیکن اِس کی تحریروں کے معیار میں کبھی کوئی فرق نہیں آیا۔ شاید اِسی لیے نِصف صدی بعد بھی سب رنگ کے شاٸقین کی تعداد پہلے جتنی بلکہ اگر یہ کہا جاۓتو غلط نہ ہوگا کہ پہلے سے بھی زیادہ ہے۔ اب یہاں سوال یہ اُٹھتا ہے کہ جب سب رنگ کی آخری اشاعت کو بھی اتنا وقت ہوگیا ہے تو اس کے شائقین اور پرستاروں کی تعداد میں اضافہ کیسے ہورہا ہے. تو یہ کمال بھی حسن رضا گوندل کا ہی ہے کہ اُنھوں نے سوشل میڈیا کو مُثبت طور پر استعمال کرتے ہوۓاُن لوگوں کو بھی سب رنگ کا گرویدہ بنایا جِن کا سب رنگ سے تعارف اُس وقت تو یہ کمال بھی حسن رضا گوندل کا ہی ہے کہ اُنھوں نے سوشل میڈیا کو مُثبت طور پر استعمال کرتے ہوۓاُن لوگوں کو بھی سب رنگ کا گرویدہ بنایا جِن کا سب رنگ سے تعارف اُس وقت ہوا جب اِس کی اشاعت میں تعطُّل آیا یعنی سب کا ابتدائی اور اُس کے عروج کا زمانہ نہیں دیکھا تھا۔
سب رنگ کے لاکھوں چاہنے والے ہیں لیکن سب رنگ سے جیسا عشق حسن رضا گوندل نے کیا اُس کی مِثال کہیں اور نظر نہیں آتی اُن کا عشق، جُنوں کی حد کو پہنچا ہوا عشق محض لفظوں میں بیان نہیں کِیا جاسکتا۔ اِس جُنوں خیز عشق کی راہ میں جو دُشواریاں پیش آئی ہوں گی اور اُن سے وہ کیسے نبردآزما ہوۓہوں گے یہ تو وہ خُود ہی بتاسکتے ہیں۔
بقول جگر مُراد آبادی کے ”یہ عِشق نہیں آساں بس اِتنا سمجھ لیجئے اِک آگ کا دریا ہے اور ڈُوب کے جانا ہے“ حسن رضا گوندل کا سب رنگ سے عشق تو گویا ایک الگ ہی نوع کا ہے وہ جو کہتے ہیں نا کسی کے لِیۓزندگی وقف کردینا تو گوندل صاحب نے واقعی سب رنگ کے لیۓاپنی زندگی وقف کردی ہے۔ اُنھوں نے سب رنگ سے محض زُبانی عِشق کا دعویٰ نہیں کِیا بلکہ اِس جُنوں آمیز عِشق کا ثُبوت عملی طور پہ پیش کِیا۔ سب رنگ کی کہانیوں کو ” سب رنگ کہانیاں“ کی صُورت میں سب رنگ عاشقان کے سامنے پیش کِیا۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ سب رنگ میں ادبِ عالیہ شائع ہوتا تھا جسے اُردو ادب کے عطر کے خُوب صورت لقب سے مُلقّب کِیا گیا۔ اِس بنا پر سب رنگ کا ہر شُمارہ بُہت خاص اہمیت رکھتا ہے لیکن پھر ہوا یوں کہ قریب ڈیڑھ دو عشروں بعد سب رنگ کی اشاعت تعطُّل کا شکار ہونے لگی اور ایک وقت ایسا آیا کہ سب رنگ بند ہی ہوگیا۔
سب رنگ شائقین ہر اُس جگہ سے جہاں پُرانی کِتابیں اور رِسالے مِل سکتے ہیں، سب رنگ تلاشتے پھرتے۔ لیکن خُوش نصیب لوگ ہی سب رنگ کے پُرانے شُمارے حاصل کرنے میں کام یاب ہوپاتے اور ناکام رہ جانے والے تڑپتےہی رہتے۔ تب گوندل صاحب نے یہ سوچا کہ چوں کہ اب شکیل عادل زادہ کا سب رنگ تو رہا نہیں اور شاید دوبارہ کبھی ہو بھی نہ تو اس رسالے کو کسی طرح اُس کے عُشّاق کے لیۓمحفوظ کِیا جاۓ۔ تب انھوں نے سب رنگ کی کہانیوں کو کِتابی صورت میں محفوظ کرنے کا سوچا نہ صِرف سوچا بلکہ اُس پہ عمل بھی کرڈالا۔ اُن کے سامنے ایک تجویز یہ بھی تھی کہ سب رنگ کے پُرانے شُماروں کو اُسی طرح دوبارہ شاٸع کِیا جاۓجیسے وہ پہلے شاٸع ہوۓتھے۔ گوندل صاحب مذکُورہ بالا تجویز سے مُتّفِق نہیں تھے۔ اُن کے مُطابق رِسالے اور اخبار اُس طرح محفوظ نہیں رہ پاتے جِس طرح کِتابیں۔
پھر یہ کہ کِتابیں لوگوں کے نِجی کُتب خانوں کے علاوہ اسکول، کالج اور یونی ورسٹی وغیرہ کی لاٸبریریوں میں بھی زیادہ محفوظ رہتی ہیں نیز کُتب بینی کے شوقین حضرات کی دسترس میں بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ چُناں چہ اِسی سبب اُنھوں نے ”سب رنگ کہانیاں“ ترتیب دی۔ ”سب رنگ کہانیاں“ درحقیقت جِن کے لِیۓشاہ کار کہانیوں کا نام زیادہ موزُوں معلُوم ہوتا ہے۔ ہر لحاظ سے ایک خُوب صورت کِتاب ہے۔ اِسے دیکھ کے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی بےلوث عاشقِ صادق نے اپنی محبوبہ دِل نواز کو اپنے خُلوص کا تحفہ نذر کِیا ہے یا کسی عقیدت مند پُجاری نے دیوی کے حضور نذرانہعقیدت پیش کِیا ہو۔
کِتاب کیا ہے ایک شاہ کار ہے اور کیوں نہ ہو آخِر ایک عاشقِ صادق کے عشق کا ثُبوت اور اُس کی مُحبت کا نذرانہ ہے۔ کِتاب بہترین ہے۔ کہانیوں کا اِنتخاب اعلیٰ ہے۔ کاغذ عُمدہ ہے۔ کہانیاں اُسی طرز پہ شامِل کی گئی ہیں جیسے کہ سب رنگ میں شایع ہوتی تھیں یعنی کہ مُصنّف کے تعارُف کے ساتھ۔ کِتاب کیا ہے رنگا رنگ مہکتی کلیوں کا گُلشن ہے کہ ہاتھ میں کِتاب لیتے ہی ہر سُو رنگ و خُوشبو بِکھر جاتے ہیں یا روشنی بکھیرتے دمکتے ستاروں کی کہکشاں ہے کہ چاروں طرف اُجالا ہی اُجالا ہوجاتا ہے لفظوں کا ایسا خِیرہ کُن اُجالا کہ نگاہ کو کُچھ اور نظر نہ آئے۔ عاشقانِ سب رنگ، حسن رضا گوندل صاحب کے ممنون ہیں کہ انھوں نے اِتنا بہترین کام کِیا اور اُن کے لیے دُعاگو ہیں کہ اللہ پاک اُنھیں استقامت عطا فرماۓتاکہ وہ اِس نوع کا بہترین اِنتخاب شاٸقینِ ادب کے ذوق کی تسکین کے لِیۓمُرتّب کرتے رہیں۔