Urdu News

 افغانی یونیورسٹیوں،تعلیمی مراکز میں اندراج میں 70فیصدکی کمی

 افغانی یونیورسٹیوں،تعلیمی مراکز میں اندراج میں 70فیصدکی کمی

  کابل۔ 27؍ فروری

افغانستان میں یونیورسٹیوں اور تعلیمی مراکز کی یونین نے کہا کہ خواتین کی تعلیم پر حالیہ پابندیوں نے یونیورسٹیوں کو شدید متاثر کیا ہے۔یونین کے میڈیا ڈائریکٹر محمد کریم ناصری نے بتایا کہ شرکاکی تعداد میں 70 فیصد کمی آئی ہے۔اگر ہم عام طور پر بات کریں تو یونیورسٹیوں میں داخلہ 60 سے 70 فیصد تک گر گیا ہے۔

 اس سے پہلے بہت سے لوگ اندراج کر رہے تھے۔تعلیمی مراکز اور یونیورسٹیوں کے مالکان نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر صورتحال اسی طرح جاری رہی تو وہ اپنی یونیورسٹیاں اور دیگر تعلیمی سہولیات بند کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

دعوت یونیورسٹی کے سربراہ، شیر علی ظریفی نے کہا، اس نے ہماری سرگرمیاں متاثر کی ہیں کیونکہ پہلے ہمارے پاس دو ذرائع سے آمدنی ہوتی تھی لیکن اب ہمارے پاس ایک ذریعہ ہے۔

ہفتہ کو قائم مقام وزیر اعلیٰ تعلیم، مولوی محمد ندا ندیم نے ایک مذہبی تقریب میں کہا کہ وہ ملک کے تعلیمی شعبے کی حمایت کریں گے۔

یونیورسٹی کے انسٹرکٹرز کا خیال ہے کہ چھٹی جماعت سے اوپر کی لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی اور غربت ملک کی یونیورسٹیوں میں داخلے میں کمی کی بڑی وجوہات ہیں۔

یونیورسٹی کے ایک انسٹرکٹر فضل ہادی وزین نے کہا کہ امارت اسلامیہ کو لڑکیوں کے لیے یونیورسٹیاں دوبارہ کھولنی چاہئیں اور سخت پالیسیوں کو روکنا چاہیے اور طالبات کو تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دینی چاہیے۔یونیورسٹی کے ایک انسٹرکٹر، سید جواد سجادی نے کہا، اگر مستقبل کے لیے ایسی پالیسیاں بنائی جائیں جن پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے، تو یونیورسٹیوں اور پڑھائی میں طلباء کی واپسی بڑھے گی۔یونین کے اعداد و شمار کے مطابق اگر لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی پر پابندیاں نہ بدلی گئیں تو 40 یونیورسٹیاں بند کرنے پر مجبور ہو جائیں گی۔

Recommended