پشاور ، پاکستان
پاکستان میں نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کا سلسلہ بدستور قوم کو پریشان کر رہا ہے جس کا تازہ ترین واقعہ پشاور میں جوڈیشل کمپلیکس کے باہر ایک خاتون کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔ پولیس اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے مقامی نیوز ایجنسی نے رپورٹ کیاکہ خاتون کو پشاور میں جوڈیشل کمپلیکس کے گیٹ نمبر 2 کے باہر اس کے والد اور بھائی نے غیرت کے نام پر گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔ تاہم باپ بیٹے کی جوڑی کو پولیس نے حراست میں لے لیا ہے، جنہوں نے بعد میں غیرت کے نام پر قتل کا اعتراف کر لیا ہے۔ میڈیا کا کہنا ہے کہ جرائم میں استعمال ہونے والا اسلحہ بھی برآمد کر لیا گیا ہے۔
پاکستان میں ہر سال غیرت کے نام پر ہونے والی 5000 ہلاکتوں میں سے پانچواں حصہ پاکستان میں ہوتا ہے۔مبصرین نے نوٹ کیا ہے کہ تشدد صرف خواتین پر ہی نہیں ہوتا بلکہ مردوں کی زندگیوں کو بھی اتنا ہی خطرہ لاحق ہے۔پاکستان میں اس طرح کی مجرمانہ کارروائیاں اس موقف پر جائز ہیں کہ جب مرد اور عورت زنا کرتے ہیں یا فرار ہونے میں ملوث ہوتے ہیں تو خاندان پر فرض بنتا ہے کہ انہیں قتل کرکے عزت بحال کرے۔ مختلف پاکستانی گھرانوں میں بعض ثقافتی روایات اور سماجی انتظامات کا استعمال اس ذہنیت کی حمایت کے لیے کیا جاتا ہے تاکہ خاندان کی "عزت" کو برقرار رکھا جا سکے اور اسے تشدد کی کارروائی نہ سمجھا جائے۔ماہرین کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کا اس عقیدے کے ساتھ گہرا تعلق ہے کہ معاشرہ کسی شخص کو قتل کرنے کی اجازت دیتا ہے اگر وہ اپنی دہائیوں پرانی روایات کی متعین حدود سے تجاوز کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کوئی قانونی مداخلت نہیں چاہتا۔
پاکستان ڈیلی کی رپورٹ کے مطابق، اس قسم کے اعتقاد نے جرم کو پولیس کے ہاتھ سے بھی نکال دیا ہے کیونکہ یہ مجرموں کے چنگل سے متاثرہ کی جان بچانے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔پولیس کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان کے صوبہ سندھ میں جنوری 2019 سے جنوری 2020 کے درمیان غیرت کے نام پر قتل میں ملوث 126 افراد پر شبہ ہے، جن میں سے 32 سے تفتیش جاری ہے۔