کابل: افغانستان(Afghanistan) کے نائب صدر امراللہ صالح(Amrullah Saleh) نے خود کو ملک کا ’کارگزار صدر‘ اعلان کر دیا ہے۔ منگل کو کئے گئے اعلان میں انہوں نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ وہ افغانستان میں ہی ہیں۔ کچھ ہی دنوں پہلے امراللہ صالح نے یہ بھی واضح کردیا تھا کہ وہ سرینڈر نہیں کریں گے۔ ایک ٹوئٹ کے ذریعہ انہوں نے بتایا تھا کہ وہ ’ایک چھت کے نیچے طالبان(Taliban) کے ساتھ نہیں رہیں گے‘۔ کچھ تصاویر بھی سامنے آئی تھیں، جن میں امراللہ صالح طالبان مخالف احمد شاہ مسعود کے بیٹے کے ساتھ نظر آرہے تھے۔
ایسا لگ رہا تھا کہ دونوں نے مل کر طالبان پر چڑھائی کرنے کی تیاری کرنے کی شروعات کر دی ہے۔ امراللہ صالح، جو طالبان کی خلاف کھل کر بولتے ہیں، نے کہا کہ وہ تمام رہنماؤں سے ان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے رابطہ کر رہے ہیں۔ صالح نے ٹویٹ کیا کہ "افغانستان کا آئین صدر کی عدم موجودگی، فرار، استعفیٰ یا موت کی صورت میں پہلے نائب صدر کو قائم مقام صدر بناتا ہے۔ میں اس وقت اپنے ملک میں ہوں اور قانونی قائم مقام صدر ہوں۔ میں تمام رہنماؤں سے ان کی حمایت اور اتفاق حاصل کرنے کے لیے پہنچ رہا ہوں۔"
کون ہیں امراللہ صالح
کم عمر میں یتیم ہوئے امراللہ صالح گورلا کمانڈر مسعود کے ساتھ 1990 کے وقت لڑائی لڑی۔ اس کے بعد انہوں نے افغانستان حکومت میں اپنی خدمات دیں۔ امراللہ صالح نے بتایا کہ شدت پسندوں نے انہیں پکڑنے کے لیے ان کی بہن پر تشدد کیا تھا۔ گزشتہ سال ٹائم میگزین میں لکھے کالم میں انہوں نے بتایا، ’1996 میں جو ہوا، اس کے بعد طالبان کو لے کر میرا نظریہ ہمیشہ کے لیے بدل گیا‘۔ 11 ستمبر 2001 کو ہوئے حملے کے بعد امراللہ صالح سی آئی اے کے لیے اہم کڑی بن گئے تھے۔ اسی ضمن میں افغانستان میں تشکیل دی گئی نئی خفیہ ایجنسی نیشنل سیکورٹی ڈائریکٹوریٹ (این ڈی ایس) تک پہنچ کے لیے ان کا راستہ تیار کیا۔ مانا جاتا ہے کہ این ڈی ایس سربراہ کے طور پر امراللہ صالح نے شورش پسند گروپوں کے اندر اور سرحد پار پاکستان میں مخبروں اور جاسوسوں کا بڑا نیٹ ورک تیار کیا تھا۔ ان کی طرف سے جمع کی گئی خفیہ اطلاع اس بات کا ثبوت ملا کہ پاکستان کی فوج نے طالبان کی حمایت کرنا جاری رکھا ہے۔
پاکستان کرتا ہے طالبان کی حمایت
سال 2019 میں نیوز 18 کو دیئے انٹرویو میں امراللہ صالح نے بتایا تھا کہ طالبان واضح نظریہ کے لیے لڑتا ہے۔ طالبان اور پاکستان کے درمیان مضبوط تعلقات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ وہ اس بات کو لے مطمئن تھے کہ القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن پاکستان میں تھا۔ اسے طالبان بچا رہا تھا۔
امراللہ صالح کے قتل کی کوششیں
سال 2010 میں کابل امن مذاکرات پر قابل توہین حملے کے بعد انہیں افغانستان کے جاسوسی سربراہ کے طور پر برخاست کر دیا گیا تھا۔ حالانکہ، اس دوران بھی انہوں نے طالبان اور اسلام آباد کے خلاف اپنی جنگ ٹوئٹر پر جاری رکھی۔ سال 2018 میں انہوں نے صدر اشرف غنی کے ساتھ اتحاد ہونے کے بعد داخلی وزارت کی ذمہ داری نبھائی۔ افغانستان سے امریکہ کی واپسی کی تیاری کے دوران نائب صدر کئی بار طالبان کے حملے کا شکار ہوئے۔ گزشتہ ستمبر میں ہی ان کے قافلے پر بم دھماکہ ہوا تھا، جس میں کابل میں کم از کم 10 لوگوں کی موت ہوگئی تھی۔ حملے کے کچھ ہی گھنٹوں کے بعد امراللہ صالح ایک ویڈیو میں زخمی ہاتھ کے ساتھ نظر آئے اور دوبارہ سے لڑنے کا وعدہ کیا۔ انہوں نے کہا تھا، ’ہم جنگ جاری رکھیں گے‘۔