Urdu News

افغانستان : اشرف غنی کا پہلا بیان آیا سامنے، ملک کو خون خرابے سے بچانے کے لیے ملک چھوڑا

افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی

کابل: افغانستان کی راجدھانی کابل میں طالبان کے آنے کے بعد صدر اشرف غنی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کے بعد ملک چھوڑ دیا۔ افغانستان چھوڑ کر قزاقستان پہنچے اشرف غنی نے سوشل میڈیا پر بیان جاری کیا ہے۔ اشرف غنی نے لکھا کہ خون کے سیلاب کو روکنے کے لئے انہیں یہی راستہ سب سے مناسب لگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ان کے لیے مشکل انتخاب تھا۔

اشرف غنی نے لکھا، ’آج میرے سامنے ایک مشکل انتخاب آیا، مجھے مسلح طالبان کا سامنا کرنا چاہئے جو راشٹرپتی بھون میں داخل ہونا چاہتے تھے یا محبوب ملک (افغانستان) کو چھوڑنا چاہئے، جس کی میں نے گزشتہ 20 سالوں سے تحفظ اور تحفظ کے لئے اپنی زندگی وقف کردی‘۔ اشرف غنی نے لکھا، ’اگر ابھی بھی بے شمار ملک کے باشندے شہید ہوتے اور وہ کابل شہر کی بربادی دیکھتے تو نتائج اس 60 لاکھ آبادی والے شہر میں بڑی انسانی آف آجاتی‘۔ اشرف غنی نے لکھا، ’طالبان نے مجھے ہٹایا، وہ یہاں پورے کابل اور کابل کے لوگوں پر حملہ کرنے کے لئے آئے ہیں‘۔

اشرف غنی نے مزید لکھا، ’خون کے سیلاب سے بچنے کے لیے میں نے سوچا کہ باہر نکلنا ہی سب سے اچھا متبادل ہے۔ طالبان نے تلوار اور بندوقوں کا فیصلہ جیتا ہے اور اب وہ ملک کے باشندوں کے احترام، دولت اور عزت نفس کی حفاظت کے لیے ذمہ دار ہیں۔ تاریخ میں کبھی بھی خشک طاقت نے کسی کو منظوری نہیں دی ہے اور یہ ان کے لئے نہیں دیں گے‘۔

راشٹرپتی بھون پر طالبان کا قبضہ

واضح رہے کہ الجزیرہ نیوز نیٹ ورک پر نشر ویڈیو فوٹیج کے مطابق، طالبان جنگجووں نے افغانستان کی راجدھانی کابل واقع راشٹرپتی بھون پر قبضہ کرلیا ہے۔ طالبان کے جنگجو  اتوار کو افغانستان کی راجدھانی کابل میں گھس گئے اور مرکزی حکومت سے بلا شرط خود سپردگی کرنے کو کہا ہے۔ وہیں، افغان اور غیر ملکی شہریوں کے جنگ سے متاثر ملک سے نکلنے کی ہوڑ لگ گئی ہے۔ اس درمیان چوطرفہ طور پر گھری مرکزی حکومت کو عبوری انتظامیہ کی امید ہے، لیکن اس کے پاس متبادل کم ہوتے جا رہے ہیں۔ شہریوں کو خوف ہے کہ طالبان حکومت پھر سے ظالمانہ حکمرانی نافذ کرسکتی ہے، جس سے خواتین کے سبھی حقوق ختم ہوجائیں گے۔ لوگ بینکوں میں جمع اپنی زندگی بھر کی کمائی نکالنے کے لئے اے ٹی ایم مشینوں کے باہر کھڑے ہیں۔ ہیلی کاپٹر آسمان میں چکر لگا رہے ہیں۔ وہ کچھ امریکی سفارت خانے سے ملازمین کو نکالتے دیکھے گئے۔ کئی دیگر سفارت خانے بھی اپنے ملازمین کو ملک بھیجنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

Recommended