Urdu News

افغانستان بحران: افغانستان کی موجودہ صورت حال کے لیے کیا طالبان ذمہ دار ہے؟

افغانستان بحران

افغانستان میں سب کچھ بدل گیا ہے۔ 15 اگست کو طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد اس ملک کے لوگوں کی تقدیر بھی بدل گئی۔ راتوں رات لوگوں کے رہنے اور محفوظ رہنے کا ایک بحران پیدا ہو گیا ہے۔ لوگ کسی نہ کسی طرح طالبان سے بچنے کے لیے ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔ افغانستان کی تازہ ترین صورتحال ان تصاویر میں دیکھیں۔ کابل کے ایک پارک میں سو رہا یہ بچہ افغانستان کے شمالی صوبے میں افغان فوج اور طالبان کے درمیان جنگ سے بچ کر آیا ہے۔

گزشتہ پیر کو ہوا میں اڑتے ہوئے طیارے سے گر کر 3 افراد ہلاک ہوگئے۔ یہ ایک فوجی طیارہ تھا اور معلومات کے مطابق لوگ اس کی باڈی پر لٹک کر سفر کر رہے تھے۔ملک چھوڑنے کے لیے کسی طرح طیارے میں گھسنے کی کوشش کرتے لوگ۔کابل ایئرپورٹ کے باہر کئی کلو میٹر لمبا ٹریفک جام۔

کابل ایئرپورٹ کی دیوار پھاند کر اندر گھسنے کی کوشش کرتے لوگ، یہاں پر ہزاروں کی تعداد میں لوگ پہنچے تھے۔بے بسی کا عالم یہ ہے کہ لوگ صرف کسی بھی طرح ملک سے باہر نکلنا چاہتے ہیں۔ کوئی گاڑی سے بارڈر کراس کر رہا ہے ، جن کے پاس کار نہیں ہے وہ پیدل ہی نکل پڑے ہیں۔ایک طرف افغانیوں کے سامنے زندگی اور موت کا سوال ہے۔ دوسری جانب طالبان جنگجو فتح کا جشن منا رہے ہیں۔ جنگجو راشٹرپتی بھون کے جم میں ورزش کرتے نظر آرہے ہیں۔

کابل میں طالبانی جنگجو نے گھوڑے پر بیٹھ کر بھی جشن منایا۔بینکوں اور اے ٹی ایم پیسے نکالنے کیلئے لمبی۔لمبی قطاریں۔کابل کی سڑکوں ہر طالبانی جنگجو ہتھیار لہراتے ہوئے جیپ اور کار سے گھوم رہے ہیں۔

45 سیکنڈ کی کلپ میں لڑکی کے چپرے پر ہزار بھاؤ آتے جاتے نظر آرہے ہیں۔ مانو اسے اپنا بھی مستقبل نہیں نقاب پوش لڑکیوں میں نظر آرہا ہے جنہیں طالبان جانوروں کی طرح سمجھتے ہیں۔ لڑکی روتے ہوئے بتاتی ہے کہ اس کا جرم صرف اتنا ہے کہ وہ افغانستان میں پیدا ہوئی ہے۔ ہماری گنتی ہی نہیں ہوتی کیونکہ ہم افغانی لڑکیاں ہیں۔ میں صرف رو سکتی ہوں کیونکہ ہم تاریخ میں دھیرے۔دھیرے مر رہے ہیں۔ کسی کو بھی ہماری پرواہ نہیں ہے۔

کابل۔ افغانستان (Afghanistan) کے حالات طالبان (Taliban) کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے بے قابو ہوتے جا رہے ہیں۔ طالبان جنگجو ہر روز عام لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔ اب ان کی نظر نوجوان لڑکیوں پر ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق طالبان لیڈران 12 سے 45 سال کی عمر کی لڑکیوں اور خواتین کو جنسی غلام (Sex Slaves) بنانا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گھر گھر جا کر اس عمر کی لڑکیاں اور عورتوں کو اٹھایا جا رہا ہے۔

یہ معلومات 'دی سن' کی رپورٹ میں دی گئی ہے۔ اس سے قبل طالبان دہشت گردوں نے صرف خواتین کو شرعی قوانین پر عمل کرنے کے لیے کہا تھا ، لیکن ان کی حالیہ حرکت عراق اور شام میں موجود دولت اسلامیہ کے عسکریت پسندوں کی کرتوت سے مل رہی ہے جو پہلے سے ہی خواتین کو سیکس سلیوس بنانے کے لیے بدنام ہیں۔

گزشتہ مہینے یہ انکشاف ہوا تھا کہ طالبان نے قبضے والے علاقے میں موجود اماموں سے کہا تھا کہ وہ 15 سال سے کم عمر کی لڑکیوں اور 45 سال سے کم عمر کی بیواؤں کی فہرست تیار کریں اور انہیں طالبان کے حوالے کریں تاکہ وہ اپنے جنگجوؤں کی شادی ان خواتین سے کرا سکیں۔اب رپورٹس میں سامنے آیا ہے کہ طالبان افغانستان سے خواتین کو زبردستی اور اغوا کی مدد سے اٹھا رہے ہیں۔اس کے علاوہ طالبان نے خواتین کے لیے بھی الگ قوانین بنائے ہیں جس کی وجہ سے پابندیاں زیادہ ہو گئی ہیں۔ ویسے جہاں بھی طالبان کا غلبہ زیادہ ہے وہاں خواتین کے لیے خاص قوانین بنا دئے جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ طالبان نے خواتین پر اونچی ہیل والے جوتے پہننے پر بھی پابندی لگا دی ہے۔خواتین ٹیکسیوں میں سوار نہیں ہو سکتی۔ اس کے علاوہ خواتین کے لیے موٹر سائیکل ، سائیکلنگ کھیل ۔ کلود میں حصہ لینے پر بھی پابندی ہے۔یہاں تک کہ خواتین ندی میں کپڑے بھی نہیں دھو سکتیں اور نہ ہی عورتیں بالکنی اور کھڑکیوں سے باہر دیکھ سکتی ہیں۔خواتین کی تصاویر کلک کرنے پر بھی پابندی ہے ، یہاں تک کہ اشتہارات میں بھی خواتین نہیں ہوتی ہیں۔

افغانستان پر طالبان کے قبضہ کے بعد ہر طرف خوف و ہراس کا ماحول ہے۔ لوگ کسی بھی طرح ملک چھوڑنے کے لیے بے چین ہیں ۔ ایسی کئی تصاویر اور ویڈیوز کابل ایئرپورٹ سے آئے ہیں جو کہ خوفناک ہیں ۔ ایسے ہی ایک واقعہ میں کچھ افغان شہری امریکی فضائیہ کے طیارے سے لٹک کر فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان میں سے 3 افراد کی اونچائی سے گرنے کی وجہ سے موت ہوگئی ۔ ایسے لوگوں کے چیتھڑے امریکی فضائیہ کے طیارے پر بھی ملے ہیں ۔

امریکی فضائیہ نے ایک بیان میں کہا کہ امریکی فضائیہ کا سی 17 گلوب ماسٹر اتوار کو حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر لوگوں کے انخلا میں مدد کے لیے سامان لے کر اترا۔ اس سے پہلے کہ طیارہ خالی کیا جاتا ، طیارے کو سیکڑوں افغانیوں نے گھیر لیا ۔ بگڑتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے عملہ جلدی سے ایئر فیلڈ سے واپس روانہ ہوگیا ۔

فضائیہ نے کہا کہ ویڈیو کے علاوہ سی 17 طیارہ کے پہیے والے مقام پر قطر کے العدید ایئر بیس پر اترنے کے بعد انسانی باقیات ملے ہیں۔

بتادیں کہ پیر کو ایک ویڈیو وائرل ہوا تھا ، جس میں افغان شہری ایک سی 17 گلوب ماسٹر طیارہ سے نیچے گر گیا ۔ ایسا لگتا ہے کہ مایوس افغان یا تو سی 17 طیارہ کے پہیہ سے یا لینڈنگ گیئر سے چپکے ہوئے تھے اور طیارہ کے اڑان بھرتے ہی بھاری جی فورس کی وجہ سے باہر نکل گئے ۔

کابل ایئرپورٹ پر پچھلے دس دنوں میں کم از کم دس افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوگئے ہیں ۔ طالبان کے کابل پر قبضہ کے بعد ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں ہزاروں افراد نے طیارہ پکڑنے کی کوشش کی ہے۔ عہدیداروں کا خیال ہے کہ لوگوں کو ہوائی اڈے پر پروازوں کی دستیابی کے بارے میں غلط معلومات دی گئی تھیں ۔

شمسیہ حسانی (Shamsia Hassani) کا نام ان دنوں سوشل میڈیا پر بہت سنا جا رہا ہے۔ شمسیہ افغانستان کی پہلی گرافٹی خاتون اور اسٹریٹ آرٹسٹ ہیں جو خواتین کی آواز بلند کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ انہوں نے امریکی ، یورپی اور ایشیائی ممالک کا سفر کیا ہے تاکہ وہ اپنی گرافٹی پینٹنگز بنائیں اور کئی گیلری نمائشوں میں حصہ لے سکیں۔

سال 2014 میں فارین پالیسی نے انہیں دنیا کے 100 بہترین مفکرین کی فہرست میں رکھا۔ انہیں 'گڈ نائٹ اسٹوریز فار ریبیل گرلز' کے دوسرے وولیوم میں بھی جگہ ملی۔ حسانی کی ایک ویب سائٹ ہے۔ ویب سائٹ کے مطابق شمسیہ کی آرٹ میں جن خواتین کو اکیرا جاتا ہے وہ اپنی بات رکھنے سے نہ ڈرنے والی اور لوگو کی زندگی میں تبدیلی لانے کیلئے جدو جہد کرنے والی خواتین ہیں۔

ویب سائٹ کے مطابق شمسیہ حسانی کے فن نے دنیا بھر کی خواتین کو متاثر کیا ہے اور افغانستان کے فنکاروں کو نئی امید دی ہے۔ شمسیہ حسانی کے فن کا مرکز ایک patriarchal societyمیں خواتین کی عکاسی ہے۔

افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہونے کے بعد شمسیہ حسانی نے کچھ گرافکس بنائے ہیں۔ ان تصاویر پر ہر جگہ چرچا جاری ہے اور لوگوں نے افغانستان کی خواتین کے لیے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایک تصویر میں ایک عورت ہے ، جس نے نیلے رنگ کا برقع پہنا ہوا ہے۔ اس نے ہاتھوں میں پیانو پکڑا ہوا ہے۔ عورت کے پیچھے کالے کپڑے پہنے اور خوفزدہ مرد کھڑے ہیں۔ ان لوگوں کے ہاتھوں میں بندوقیں ہیں۔ یہ لوگ کوئی اور نہیں بلکہ طالبانی جنگجو ہیں۔

وہیں ایک اور تصویر میں ایک چھوٹی سی لڑکی ہے۔ ایک خوفناک طالبان جنگجو بندوق کے ساتھ اس کے سامنے کھڑا ہے۔ لڑکی کے ہاتھ میں کالے رنگ کا برتن ہے۔ برتن میں ایک روشن پھول ہے ، جو امید اور امنگوں کی علامت ہے۔ لڑکی طالبان جنگجو کی آنکھوں میں دیکھ رہی ہے۔ گویا کہہ رہی ہو کہ بغیر لڑے وہ جھکنے والی نہیں ہے۔

طالبان کے کابل پر قبضہ کرنے کے بعد شمسیہ حسانی کے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر دو دن تک کوئی ایکٹوٹی نہیں تھی۔ ایسی صورتحال میں لوگوں نے تشویش کا اظہار کیا کہ انہیں کچھ ہو تو نہیں گیا۔ حالانکہ، 17 اگست کو ، شمسیہ نے ایک تصویر پوسٹ کی۔ اس تصویر میں ایک برتن والی لڑکی کو گھٹنوں کے بل بیٹھا دکھایا گیا ہے۔ اس کے ہاتھ سے گملا چھوٹ گیا ہے اور وہ رو رہی ہے جبکہ طالبان جنگجو اس کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ شمسیہ حسانی کے منیجر نے بین الاقوامی میڈیا تنظیم ڈوئشے ویلے کو بتایا کہ شمسیہ ایک نامعلوم جگہ پر ہے ، اور مکمل طور پر محفوظ ہے۔

Recommended