Urdu News

طالبان کی واپسی کے بعد سے افغانستان اپنے نصف سے زیادہ صحافیوں سے محروم

طالبان کی واپسی کے بعد سے افغانستان اپنے نصف سے زیادہ صحافیوں سے محروم

صحافیوں کی عالمی تنظیم ’رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ایک سال قبل طالبان تحریک کے اقتدار پر قبضے کے بعد سے افغانستان نے اپنے نصف سے زیادہ صحافیوں، خاص طور پر خواتین کو کھو دیا ہے۔تنظیم کے اندازوں کے مطابق ’طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے 11,857 صحافی تھے اور آج ان میں سے صرف 4,759 رہ گئے ہیں۔‘ تنظیم نے بتایا کہ "76.19 فیصد خواتین صحافی اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں۔اس تحقیق، جسے تنظیم نے اپنی ویب سائٹ پر جمعہ کے روز شائع کیا، میں اس بات کا اشارہ دیا کہ "15 اگست 2021 کو ملک میں 547 میڈیا کے ادارے کام کر رہے تھے، اور ایک سال کے بعد ان میں سے 219 نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ اس کے برعکس 4 نئے میڈیا آؤٹ لیٹس سامنے آئے۔تنظیم نے اس بات کی تصدیق کی کہ کچھ خطوں میں موسیقی کے پروگراموں اور نیوز بلیٹن کو مذہبی پروگراموں سے بدلنے کی وجہ سے متعدد ادارے نشریات بند کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔

تنظیم نے میڈیا کے کچھ اداروں کی بندش کو ’نئی معاشی مشکلات جیسے کہ بین الاقوامی اور قومی امداد روکنا اور شدید معاشی بحران کی روشنی میں اشتہارات کی آمدنی میں کمی‘ قرار دیا۔طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے 2,756 خواتین میڈیا اداروں میں بطور صحافی کام کر رہی تھیں یا ان کے ساتھ تعاون کر رہی تھیں لیکن فی الحال ان کی تعداد 656 تک محدود ہے، جن میں سے زیادہ تر دارالحکومت کابل میں ہیں۔ 34 میں سے 11 صوبوں میں کوئی خاتون صحافی نہیں ہے۔کابل میں کام کرنے والی ایک صحافی نے کہا کہ "افغانستان میں خواتین کے رہنے اور کام کرنے کے حالات مشکل تھے اور اب بھی ہیں، لیکن آج ہم ایک غیر معمولی صورتحال سے دوچار ہیں۔تنظیم کے مطابق گذشتہ سال کے دوران کم از کم 80 افغان صحافیوں کو گرفتار کیا گیا اور تین اس وقت جیل میں ہیں۔ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے جاری کردہ عالمی پریس فریڈم انڈیکس میں افغانستان کا نمبر 156 ہے۔

Recommended