Urdu News

افغانستان: طالبان نے کابل میں لازمی حجاب کے خلاف خواتین کے احتجاج کوکیسے دبا نے کا کام کیا؟

افغانستان کی خواتین حجاب کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے

کابل، 12؍مئی

طالبان عسکریت پسندوں نے حجاب کو لازمی قرار دینے کے فیصلے کے خلاف کابل میں مظاہرے کرنے والی مٹھی بھر خواتین کو منتشر کیا اور صحافیوں کو بھی حراست میں لے لیا۔ کابل میں ہونے والے مظاہرے میں مظاہرین نے نعرے لگائے  'برقع ہمارا حجاب نہیں ہے' اور  'افغان خواتین طالبان کی گرفت میں ہیں ، افغان عوام کو ایک منہ کی روٹی کی ضرورت ہے۔

خامہ پریس کے مطابق، احتجاج کرنے والی لڑکیوں میں سے ایک زولیا پارسی کا حوالہ دیتے ہوئے، احتجاج شہر نو کے انصاری چوک سے شروع ہوا اور وزارت داخلہ کے بالکل باہر جاری رہا، جہاں طالبان نے انہیں گھیر لیا اور صحافیوں کو حراست میں لے لیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا، طالبان لڑکیوں کے اسمارٹ فونز چھین کر لے گئے۔ژولیا کے مطابق، طالبان فورسز نے مبینہ طور پر بینرز کو پھاڑ دیا اور مظاہرین کو منتشر کیا۔  ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ خواتین کو وزارت کے اندر لے جانا چاہتے تھے اور انہیں اعتراف جرم پر مجبور کرنا چاہتے تھے۔ اس سے قبل لازمی حجاب کے حوالے سے امریکا نے کہا تھا کہ اگر طالبان اپنی کارروائیاں بند نہیں کرتے تو اس سے حکومت پر دباؤ بڑھے گا۔

خامہ پریس کی خبر کے مطابق، پیر کو ایک پریس بریفنگ میں، محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ جب تک طالبان خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کو محدود کرنے والے اپنے کچھ حالیہ فیصلوں کو منسوخ نہیں کرتے تب تک دباؤ جاری رہے گا۔ پرائس نے کہا،ہم نے واضح طور پر اس تشویش کو طالبان کے ساتھ اٹھایا ہے، اور ہمارے پاس کچھ آلات ہیں جنہیں ہم استعمال کرنے کے لیے تیار ہیں اگر ہمیں یقین ہے کہ خواتین کے خلاف طالبان کے حالیہ کریک ڈاؤن کو واپس نہیں لیا جائے گا یا اسے منسوخ نہیں کیا جائے گا۔ ہفتے کے روز، طالبان رہنما نے ایک نئی ہدایت جاری کی جس میں تمام افغان خواتین کو اسلامی حجاب پہننے کا پابند کیا گیا۔

Recommended