کابل ،18 ؍اپریل
کابل میں متعدد خواتین نے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ چھٹی جماعت سے اوپر کی لڑکیوں کے لیے اسکول دوبارہ کھولیں۔طلوع نیوز نے رپورٹ کیا کہ یہ کال جنبش خداجوش زنان افغانستان کے ایک احتجاجی مظاہرے میں دی گئی تھی۔ حقوق نسواں کی ایک کارکن مونسیہ مبارز نے کہا کہ یہاں ایک نسل اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہے۔
خواتین کی ایک نسل تعلیم، کام اور سماجی سرگرمیوں کے حقوق سے محروم ہے۔ ایک اور کارکن ذکیہ زہت نے کہا، "لڑکیوں کے اسکولوں کی بندش طالبان کی جانب سے اپنے وعدے پر وابستگی کی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔" یہ اس وقت سامنے آیا جب وزارت تعلیم نے کہا کہ وہ 7-12 گریڈ میں لڑکیوں کے لیے اسکول دوبارہ کھولنے کی کوششوں کے بارے میں پر امید ہے۔
طلوع نیوز کی خبر کے مطابق، وزارت تعلیم کے ترجمان عزیز احمد ریان نے کہا کہ امارت اسلامیہ کی قیادت نے لڑکیوں کے اسکولوں کو دوبارہ کھولنے کے لیے ہری جھنڈی دکھا دی ہے۔ دریں اثنا، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نائب خصوصی نمائندے میٹ نوڈسن نے افغان سینیٹ کے چیئرمین فضل ہادی مسلم یار سے ملاقات میں نمائندہ طرز حکمرانی، ہر سطح پر بات چیت کی ضرورت اور افغانستان میں لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے تعلیم تک رسائی پر زور دیا۔ نوڈسن نے مسلم یار کے ساتھ افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن (یو این اے ایم اے) کے کردار پر بھی تبادلہ خیال کیا۔