افغانستان میں شدت پسند گروپ طالبان کی کابل میں حکومت ختم ہونے کے باوجود ملک کے بہت سے علاقوں پر اب بھی طالبان کا کنٹرول ہے۔ مقامی شہریوں نے خبر رساں اداروں کو طالبان کے زیرانتظام علاقوں میں ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے بارے میں حیران کن تفصیلات فراہم کی ہیں۔افغان شہریوں کا کہنا ہے کہ طالبان کی شدت پسندی کا طرز عمل اب بھی وہی پرانا ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ جرائم کے مرتکب افراد کی مار پیٹ اور انہیں موت کے گھاٹ اتارنا، لوگوں پر خوف طاری کرنے کے لیے مجرموں کی مسخ شدہ لاشیں سرعام پھینکنا، موبائل فون اور موسیقی سننے پر پابندی جیسے واقعات طالبان کے زیرانتظام علاقوں میں عام ہیں۔
ایک مقامی شہری کمال الدین جن کا تعلق ارگستان سے ہے نے بتایا کہ امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے بعد تحریک طالبان کی واپسی سے ملک ایک بار پھر تاریکی میں چلا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ جیسے جسیے افغانستان سے امریکی اور غیرملکی فوج واپس ہورہی ہے، لوگوں میں طالبان اور ان کے سخت گیر دور کی واپسی کا خوف بڑھتا جا رہا ہے۔کمال الدین نے بتایا کہ گذشتہ ماہ طالبان نے ان کے والد اور بھائی کو محض اس لیے حراست میں لے لیا کیونکہ وہ فون استعمال کرتے ہیں۔ طالبان نے انہیں موبائل فوج کی سمیں نکال کر پھینکنے پرمجبور کیا جس کے بعد انہیں رہائی ملی۔اخبار ’وال اسٹریٹ جرنل‘ کی رپورٹ کے مطابق کمال الدین کا کہنا ہےکہ اس نے طالبان کے خوف سے مسجد جانا بھی چھوڑ دیا کیونکہ طالبان انہیں اپنے شدت پسندوں میں بھرتی ہونے پرمجبور کرتے اور بغیر کسی اجرت کے کام کراتے ہیں۔
طالبان کے زیرانتظام قندھار کے علاقے سبیروان کے رہائشی نصار احمد نے کہا کہ طالبان نے بچیوں کو اسکول بھیجنے پرپابندی عاید کررکھی ہے۔ نصار احمد ایک دکان چلاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی بچی کو تعلیم دلوانا چاہتے ہیں۔ اب وہ شہر چھوڑ کر کسی دوسرے علاقے میں جانے کا سوچ رہے ہیں تاکہ بچی کو اسکول بھیج سکیں۔طالبان کے زیرانتظام بانگوائے علاقے کی تین بچوں کی ماں شوگوفا نے کہا کہ جب وہ اس علاقے میں آئی ہیں طالبان نے خواتین کو گھروں سے باہر جانے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ خواتین گھروں میں محصور ہوکر رہ گئی ہیں۔بعض لوگوں نے طالبان کی طرف سے عاید کردہ بھاری ٹیکسوں کی شکایت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ طالبان کے ٹیکسوں نے کمر توڑ دی ہے مگر تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات تک انہیں میسر نہیں ہیں۔
ہلمند اور قندھار کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں کا کہنا ہے کہ طالبان نے اپنے زیرانتظام علاقوں میں ٹی وی سیٹ ، موسیقی کے آلات اور دیگر اشیا کی توڑپھوڑ کرکے شہریوں کو ٹی وی دیکھنے، فون سننے اور موسیقی پرپابندی عاید کر رکھی ہے۔شہریوں کا کہنا ہے کہ صرف مشرقی لوگر کے علاقے کے باشندوں کو ٹی وی دیکھنے کی اجازت ہے۔ طالبان جنگجو خود فون استعمال کرتے ہیں۔ ایک 28 سالہ جنگجو سمندر نے بتایا کہ اس کے پاس دو موبائل فون ہیں۔