کوئٹہ ،20؍اپریل
پاکستان میں شہباز شریف کی حکومت کے تحت نئی بننے والی مخلوط حکومت کے لیے شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے، بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل (بی این پی۔ایم)نے عام شہریوں کی ہلاکتوں پر پیر کو قومی اسمبلی کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔ اپریل کو چاغی کے مقام پر ایک دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا جب سیکورٹی فورسز نے نہتے اور مظلوم بلوچ عوام پر فائرنگ کی جس میں چھ افراد شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔ بی این پی-ایم کے رہنما آغا حسن بلوچ نے ایوان میں کہا کہ ہمیشہ کی طرح ماضی کا رویہ ترک نہیں کیا گیا۔ ایک بار پھر، پرامن بے گناہ بلوچ مظاہرین پر گولیاں چلائی گئیں جس کے نتیجے میں مزید ہلاکتیں ہوئیں۔
ڈان کی خبر کے مطابق پاکستانی فورسز نے مبینہ طور پر بلوچستان کے نسلی اقلیتی علاقوں سے متعدد ڈرائیوروں کو مجبور کیا کہ وہ اپنی گاڑیاں چھوڑ دیں اور افغانستان کی سرحد کے قریب ضلع چاغی میں صحرا سے اپنے گھروں کی طرف مارچ کریں۔بی این پی ایم کے رکن نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ بلوچ عوام 1947 سے ماورائے عدالت قتل کا شکار ہیں اور آج بھی ایسا ہو رہا ہے۔سیکورٹی فورسز کو بہت زیادہ اختیارات کیوں دیے گئے؟ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں اور واک آؤٹ کرتے ہیں۔ ان حالات میں ہم حکومت میں کیسے رہ سکتے ہیں؟ ۔
وزیر اعظم نواز شریف کی ایوان سے غیر موجودگی میں پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کے رہنما خواجہ آصف نے احتجاج کرنے والے بی این پی-ایم کے قانون سازوں کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ 1960 کی دہائی سے موجود ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ زیادتیاں ہوئیں اور ان کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی خلاف ورزی کی گئی۔مسلم لیگ (ن)کے رہنما نے کہا کہ بلوچستان میں "دہشت گردی" اب بھی موجود ہے جہاں فوجی افسران اور اہلکاروں پر حملے اور انہیں شہید کیا جا رہا ہے۔