نیتن یاہو کا شام کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا اقرار، سرپرستی پر روس کا شکریہ
یروشلم،19فروری(انڈیا نیرٹیو)
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ایک اسرائیلی خاتون کی واپسی کے لیے روس کی مدد سے کام کیا جا رہا ہے۔ یہ خاتون سرحد پار کر کے شام کے اندر چلی گئی تھی۔
اسرائیلی فوج نے جمعرات کے روز اعلان کیا تھا کہ اس نے ایک سیکورٹی آپریشن کے دوران گرفتار ہونے والے دو شامی چرواہوں کو گولان میں لائن آف سیزفائر کے راستے واپس کر دیا ہے۔ تاہم اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ دونوں چرواہوں کی واپسی قیدیوں کے تبادلے کا حصہ ہے۔
البتہ گولان کے راستے شامی اراضی میں آ جانے والی اسرائیلی خاتون کی شناخت اور دیگر متعلقہ تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔جمعے کی صبح جاری بیان میں نیتن یاہو نے بتایا کہ مذکورہ اسرائیلی خاتون نے چند روز قبل سرحد عبور کی تھی جس پر شامیوں نے اسے حراست میں لے لیا۔ نیتن یاہو نے خاتون کی واپسی میں مدد کرنے پر دمشق کے حلیف روسی صدر ولادی میر پوتین کا شکریہ ادا کیا۔
شامی ذرائع ابلاغ نے بدھ کے روز بتایا تھا کہ اسرائیل کے پاس زیر حراست دو شامیوں کی رہائی کے مقابل اسرائیلی خاتون کی رہائی کا سمجھوتا طے کرانے کے لیے روس نے وساطت کار کا کردار ادا کیا ہے۔بشار حکومت کے ذرائع ابلاغ کے مطابق دونوں شامی شہریوں کا تعلق گولان کی پہاڑیوں سے ہے جس پر اسرائیل قابض ہے۔
تاہم اسرائیلی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے سیکورٹی جرائم کے سبب قید دونوں افراد کو رہائی کی پیش کش کی تھی تاہم انہوں نے اسے مسترد کر دیا۔ اس لیے کہ دونوں افراد چاہتے تھے کہ انہیں دمشق بھیج دیا جائے۔
اسرائیل نے ایرانی جوہری معاہدے کی خامیاں گنوانا شروع کر دیں
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سابق مندوب نے قیود کے بغیر امریکا کی جوہری معاہدے میں واپسی سے خبردار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل ممکنہ ردود عمل پر نظر کرے گا۔امریکی جریدے نیوز ویک کو دیے گئے بیان میں ڈینی ڈینن کا کہنا تھا کہ "وہ جانتے ہیں کہ ہماری کیا توقعات ہیں۔سابق مندوب نے مزید کہا کہ "امریکی جانتے ہیں کہ جوہری معاہدے میں کیا نقائص ہیں۔ ماضی میں ہم اعلانیہ طور پر بتا چکے ہیں اور میں کئی بار انہیں سلامتی کونسل میں پیش کر چکا ہوں۔
جولائی 2015ءمیں ایرانی جوہری معاہدہ طے پانے کے محض ایک ماہ بعد ڈینی ڈینن کا اقوام متحدہ میں بطور اسرائیلی مندوب تقرر عمل میں آیا تھا۔ ڈینن نے اپنے بیان میں مذکورہ سمجھتے میں موجود نقائص کو واضح کیا۔ ان میں ایرانی بیلسٹک میزائلوں کو ترقی دینے ، محدود پیمانے پر یورینیم افزودہ کرنے اور علاقائی ملیشیاوں کو سپورٹ کرنے وغیرہ کی اجازت شامل ہے۔اسرائیلی سابق مندوب نے باور کرایا کہ صورت حال محض گذشتہ پانچ برسوں میں خراب ہوئی ہے۔ اگر امریکا مذکورہ نقائص کو ایک جانب رکھ کر جوہری معاہدے میں دوبارہ داخل ہوا تو اسرائیل کو ایران کے حوالے سے مشکل فیصلے کرنے ہوں گے۔ڈینی ڈینن کے مطابق 2021ءکا ایران 2016ءکا ایران نہیں ہے۔
یاد رہے کہ اسرائیلی فوج کے چیف آف اسٹاف لیفٹننٹ جنرل افیف کوخافی نے گذشتہ ماہ کے اواخر میں اعلان کیا تھا کہ انہوں نے "فوج کو حکم دیا ہے کہ آئندہ برس کے دوران متعدد عملی منصوبے تیار کریں۔ ان کا مقصد جو بائیڈن کی مشترکہ ورکنگ پلان میں ایک بار پھر ممکنہ واپسی کی صورت میں رد عمل کے آپشن تیار کرنا ہے۔ کوخافی نے باور کرایا تھا کہ ان منصوبوں پر عمل درامد کا فیصلہ یقینا حکومت ہی کرے گی مگر ان منصوبوں کو تیار ہونا چاہیے اور انہیں منظوری کے لیے پیش کر دیا جانا چاہیے۔