Urdu News

بائیڈن نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بارے میں غنی سے بات کی

بائیڈن نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بارے میں غنی سے بات کی

بائیڈن نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بارے میں غنی سے بات کی

کابل ، 15 اپریل (انڈیا نیرٹیو)

 صدر جو بائیڈن نے 11 ستمبر تک ، افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بارے میں افغانستان کے صدر اشرف غنی کے ساتھ فون پر بات کی۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے یہ معلومات دی ہیں۔ غنی نے کہا صدر بائیڈن کا فون آیا تھاستمبرتک افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس سمت میں وہ افغانستان کی حمایت کرنے کے علاوہ ، اس کی امن کوششوں میں امریکہ اور نیٹو کی شراکت میں اپنا کام جاری رکھیں گے۔

افغان صدر نے کہا کہ ہماری فوج ملک کے تحفظ اور اس کی سرحدوں کے تحفظ کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ امریکہ اور نیٹو ہم افغانستان کی سلامتی کے لیے جو کچھ کر رہے ہیں اس کے لیے ہم ان کے مشکور ہیں۔

یادرہے کہ رواں سال یکم مئی سے امریکہ افغانستان سے فوج کی واپسی کا آغاز کرے گا۔انہوں نے کہا کہ ہم اپنی حفاظت کرسکتے ہیں اور طالبان کو یہ جان لینا چاہئے اگر وہ ہم پر حملہ کرتا ہے تو ، ہم اس کا مقابلہ کرنے اور اس کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

بائیڈن انتظامیہ کا افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا ستمبر تک موخرکرنے کا فیصلہ

امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے افغانستان میں موجود باقی ماندہ فوج کا انخلا ستمبر تک مؤخرکرنے کا فیصلہ کیا ہے۔افغان طالبان اور ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان گذشتہ سال فروری میں طے شدہ سمجھوتا کے مطابق اس سال یکم مئی تک جنگ زدہ ملک سے امریکی فوجیوں کا انخلا مکمل ہونا تھا۔وائٹ ہاؤس کے ایک عہدے دار نے منگل کے روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”انخلا کی نئی تاریخ 11 ستمبر کی بیسویں برسی سے آگے کی نہیں ہوگی۔یہ اس سے پہلے کی کوئی تاریخ ہوگی۔“انھوں نے صحافیوں سے گفتگو میں مزید کہا کہ ”اگر طالبان امریکی فورسز کے خلاف حملے کرتے ہیں تو ہم سخت جوابی وارکریں گے اور انھیں ان حملوں کا ذمے دار گردانیں گے۔نیز اگر دہشت گردی کے خطرات کا دوبارہ ظہور ہوتا ہے تو امریکا خطے میں اپنے ”نمایاں اثاثے“ موجود رکھے گا۔“قبل ازیں افغان حکومت بائیڈن انتظامیہ اور پینٹاگان پر یہ زور دے چکی ہے کہ وہ ملک سے فوجیوں کو واپس نہیں بلائے کیونکہ اس صورت میں ایک سکیورٹی انخلا پیدا ہوگا اور طالبان دوبارہ ملک کا کنٹرول سنبھال لیں گے۔

امریکا نے 11 ستمبر 2001کو اغواشدہ طیاروں سے نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر اورواشنگٹن کے نواح میں پینٹاگان کی عمارت پر حملوں کے ردعمل میں افغانستان میں جنگ شروع کی تھی۔سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے افغانستان میں القاعدہ اور طالبان کی بیخ کنی کے لیے اسی سال اکتوبر میں پہلے فضائی حملوں کا حکم دیا تھا اور پھر انھوں نے افغانستان میں زمینی فوج اتار دی تھی۔

اس جنگ کو اس سال اکتوبر میں بیس سال پورے ہوجائیں گے۔پینٹاگان کے ترجمان جان کربی نے گزشتہ ماہ صحافیوں کو بتایا تھا کہ ”نائن الیون کے بعد امریکا افغانستان میں 825 ارب ڈالر خرچ کرچکا ہے۔“بعض تجزیہ کاروں کے مطابق امریکا اب افغانستان میں جھونکے جانے والے مالی وسائل کو دوسری جگہوں پر صرف کرنا چاہتا ہے۔ صدر بائیڈن چین اور روس کو امریکا کا دشمن نمبر ایک قرار دے چکے ہیں۔

طالبان کا غیر ملکی افواج کے مکمل انخلاءتک کسی بھی کانفرنس میں شرکت سے انکار

افغان طالبان نے افغانستان سے غیر ملکی افواج کے مکمل انخلاتک افغان امن سے متعلق کسی بھی کانفرنس میں شرکت کرنے سے انکار کردیا ہے۔افغان طالبان کے ترجمان محمد نعیم نے کہا ہے کہ جب تک امریکا افغانستان سے اپنی تمام فوج نہیں نکال لیتا اس وقت تک طالبان افغانستان سے متعلق کسی بھی کانفرنس میں شریک نہیں ہوں گے۔

واضح رہے کہ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے افغانستان میں امریکی فوج کے انخلاءکی ڈیڈ لائن میں توسیع سے متعلق فیصلہ سامنے آیا ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن نے رواں سال 11ستمبر تک افغانستان سے تمام امریکی افواج نکالنے کا فیصلہ کیا ہے، واشنگٹن سے امریکی اخبار کے مطابق امریکی صدر بدھ کو افغانستان سے فوج نکالنے سے متعلق نئے فیصلے کا اعلان آج کرسکتے ہیں۔دوسری جانب ترک وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ افغان امن کانفرنس استنبول میں 24 اپریل سے 4 مئی تک ہوگی۔

Recommended