واشنگٹن،26مارچ(انڈیا نیرٹیو)
امریکی ایوان نمائندگان کے ایک سینئر رکن نے کہا ہے کہ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ افغانستان میں امریکی افواج کے انخلا کے لیے مقررہ ڈیڈ لائن (یکم مئی) کے بعد بھی امریکی فوج کو افغانستان میں رکھنا چاہتی ہے تاکہ دہشت گفردی کے خلاف جنگ جاری رکھی جاسکے اور 'داعش' کی خلاف کارروائیوں میں امریکی فوج کی شمولیت کویقینی بنایا جائے۔ امریکی عہدیدار کا کہنا ہے کہ موجودہ امریکی انتظامیہ کا خیال ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد 'داعش' جیسے گروپوں کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع مل سکتا ہے۔ہاوس آرمڈ سروسز کمیٹی کے چیئرمین ایڈم اسمتھ نے ایک بیان میں کہا کہ بائیڈن کے افغانستان میں قیام امن کے بارے میں اپنے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے وڑن کے بارے میں نئی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔
جوبائیڈن ٹرمپ سے مختلف انداز میں سوچتے ہیں اور وہ افغانستان سے امریکی فوج کی عجلت میں واپسی کے حامی نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نئی امریکی انتظامیہ نے افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کے لیے طالبان کی طرف سے دی گئی ڈیڈ لائن پر کوئی اقدام نہیں کیا ہے۔بائیڈن نے کہا تھا کہ واشنگٹن اور طالبان کے مابین فروری 2020 میں ہونے والے معاہدے میں طے شدہ آخری تاریخ پر چلنا مشکل ہوگا۔اسمتھ نے"فارن پالیسی" کے ایک فورم کے سامنے کہا کہ انہوں نے انخلا کے بارے میں قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان اور سیکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن سے بات کی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ میرے خیال میں ایک عام احساس ہے کہ یکم مئی کی تاریخ وقت سے پہلے کی ہے۔ کم از کم لاجسٹک نقطہ نظر سے ایسا ممکن نہیں۔ ہمارے پاس افغانستان میں تقریبا 3500 فوجی موجود ہیں اور ہمارے اتحادیوں کی تعداد 7000 کے قریب ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ آپ چھ ہفتوں میں کسی بھی طرح 10،000 سے زیادہ فوجی واپس نہیں بلا سکتے۔ انتظامیہ کا "پہلا کام" تھا کہ وہ امریکی زیرقیادت فورسز کو تھوڑی دیر تک رہنے کی اجازت دینے کے بارے میں طالبان سے بات کرتی۔بائیڈن انتظامیہ یکم مئی کے بعد طالبان سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے، پھر کم از کم یہ دیکھنا ہے کہ کیا طالبان نے اپنا خیال بدل لیا ہے۔ کیا طالبان 'داعش' کے خلاف اسی عزم کے ساتھ لڑ رہے ہیں جس عزم کے ساتھ افغان حکومت لڑ رہی ہے۔ کیا طالبان کے امریکہ کے بارے میں موقف میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔ مجھے اس پر شبہ ہے۔
بائیڈن امیگریشن اصلاحات میں تیزی سے کام کے خواہاں
امریکی صدر جو بائیڈن چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ امیگریشن اصلاحات پر تیزی سے کام کرے تاکہ ہندوستانی ڈاکٹروں اور دیگر پیشہ ور افراد کو گرین کارڈ دینے کے عمل کو تیز کیا جاسکے۔ وائٹ ہاوس کی ترجمان جین پاکی نے کہا کہ صدر کا خیال ہے کہ امیگریشن سسٹم میں کئی سطحوں پر خامیاں ہیں۔ پاکی ہندوستانی ڈاکٹروں کے ذریعہ پارلیمنٹ کے باہر مظاہرے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دے رہے تھے۔
جب ایچ بی ون ویزا رکھنے والوں کی شریک حیات اور ایل ون ویزا جاری کرنے میں تاخیر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ ہم امیگریشن اصلاحات پر زور دے رہے ہیں۔ گرین کارڈز جاری کرنے کے لئےہندوستانی ڈاکٹروں نے گذشتہ ہفتے پارلیمنٹ کے باہر مظاہرہ کیا تھا۔ صرف گزشتہ ماہ ہی ، ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ ممبران پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ میں امیگریشن اصلاحات کا ایک جامع بل پیش کیا۔ اس سے لاکھوں ہندوستانی آئی ٹی پیشہ ور افراد کو فائدہ ہوگا۔
اس بل میں کسی بھی ملک کے غیر رہائشیوں کی تعداد کو روزگار پر مبنی گرین کارڈز کے لئے محدود کرنے سے متعلق ابتدائی پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس بل کی منظوری کے ساتھ ہی ، جو لوگ 10 سال سے زیادہ عرصے سے گرین کارڈ کے منتظر ہیں ، ان کو بھی فوری طور پر قانونی طریقے سے ملک میں مستقل رہائش اختیار کرنے کی اجازت ہوگی۔