برطانوی وزیرخارجہ ڈومینیک راب نے ایران کی حمایت سے سعودی عرب پردہشت گردی کے حملوں کے خلاف اپنے ملک کی جانب سے مملکت کی غیرمتزل حمایت کا اظہارکیا ہے اوربرطانیہ کے اس پختہ عزم کا اعادہ کیا ہے کہ خطے کے تحفظ کے لیے ایران سے ایک مضبوط جوہری سمجھوتا کیا جائے گا۔انھوں نے مملکت کے حالیہ دورے کے موقع پرالعربیہ نیوزچینل سے خصوصی انٹرویو میں برطانیہ،سعودی عرب کے درمیان دوطرفہ تعلقات کے مختلف پہلووں کے بارے میں اظہارخیال کیا ہے۔انھوں نے سوموار کے روزنیوم میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی تھی اور دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تعلقات کے فروغ کے بارے میں تبادلہ خیال کیا ہے۔
ڈومینیک راب نے انٹرویو میں ایران سے 2015ءمیں طے شدہ جوہری سمجھوتے کی مکمل بحالی سے متعلق ویانا میں جاری مذاکرات میں ہونے والی پیش رفت پر بھی روشنی ڈالی ہے۔انھوں نے بتایا کہ ”ہم ویانا مذاکرات میں پیش رفت سے اپنے سعودی شراکت داروں کو بھی آگاہ رکھ رہے ہیں۔“انھوں نے کہا:”ہم اس معاملے میں بہت واضح ہیں،ایران کو کبھی فوجی مقاصد کے لیے جوہری صلاحیت کے حصول کی اجازت نہیں دی جانا چاہیے اوراس کے جوہری سمجھوتےکے تمام تقاضوں کی پاسداری کرنا چاہیے۔“
ان کا کہنا تھا:”ہم یہ چاہتے ہیں کہ ایران یمن ، عراق اور شام میں اپنی تخریبی سرگرمیوں سے دستبردار ہوجائے۔ برطانیہ اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کرایران کے اس تخریبی کردارکو محدود کرنے کے لیے کام کررہا ہے تاکہ اس کوعدم استحکام کی کسی سرگرمی کے لیے کوئی جگہ ہی نہ مل سکے اور ایران کو اس کے تخریبی کردار پر قابل مواخذہ ٹھہرایاجاسکے۔“
ڈومینیک راب نے کہا:”میرے خیال میں یہ بات اہم ہے کہ اہم اپنی اقدار اور مفادات کے ساتھ کھڑے ہوں اور ایک بہت پختہ حکمت عملی اختیار کریں۔سعودی اس معاملے میں برطانیہ کو اپنا ایک مضبوط اتحادی پائیں گے۔نیز وہ ایسے اتحادی ممالک کی تعداد میں اضافے کے لیے سفارت کاری کو بروئے کار لائے گا۔“
انھوں نے یمن سے ایران کی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا کے سعودی عرب میں شہریوں اور شہری اہداف پرڈرون اور بیلسٹک میزائلوں سے حملوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”تمام فریقوں کواس ضمن میں جنگ بندی کی پاسداری کرنی چاہیے اور حوثیوں کومذاکرات کی میزپرلانے کے لیے دباؤڈالا جانا چاہیے۔“انھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا”سفارت کاری کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھاجانا چاہیے کیونکہ تنازع کا بات چیت کے ذریعے ہی کوئی پائیدار حل نکلےگا۔“مسٹر راب نے سعودی عرب اور برطانیہ کے دو طرفہ تعلقات کے مختلف پہلووں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سعودی ویڑن2030ءکے بعد دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ کاروباری اور تجارتی روابط کے فروغ کے بہت سے مواقع موجود ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ”ولی عہد شہزادہ محمد کے اصلاحات کے ایجنڈے پر عمل درآمد کے بعد آپ سعودی عرب میں تبدیلی کی ہواؤں کو دیکھ سکتے ہیں۔اس لیے میرے خیال میں سعودی عرب اور برطانیہ کے درمیان دوطرفہ تجارت، کاروباراور تخلیقی شعبوں میں تعاون بڑھانے کے بہت سے مواقع موجود ہیں۔“انھوں نے اپنی گفتگو میں دونوں ملکوں کو درپیش بعض نئے خطرات کی بھی نشان دہی کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ”مس انفارمیشن اورسائبرحملوں سمیت مختلف خطرات کا سامنا ہے۔مخالف ریاستوں یا جرائم پیشہ گروہوں سے ایسے خطرات لاحق ہوسکتے ہیں لیکن ہم دونوں ملکوں کے درمیان مستقل پائیدار روابط سے ان خطرات کو کم سے کم کرسکتے ہیں۔“
ڈومینیک راب نے دونوں ملکوں میں دفاع کے شعبے کے علاوہ موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے مشترکہ اہداف اور قابل تجدید ٹیکنالوجیز میں دوطرفہ تعاون کے بارے میں بھی اظہارخیال کیا ہے۔انھوں نے کہا کہ ” سعودی عرب بھی برطانیہ کی قابل تجدید ٹیکنالوجی بالخصوص شمسی توانائی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے میں مہارت سے فائدہ اٹھاسکتا ہے۔اس صورت میں ہم ایک پائیدار اور سبز مستقبل کی جانب آگے بڑھ سکتے ہیں۔اس سے معیارِزندگی میں اضافہ ہوگا،زیادہ مشاہرے کی حامل ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے اور معیشت کو تقویت ملے گی۔“