افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد، سخت مشقت میں ملوث غربت زدہ غور کے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک افغانی نیوز ایجنسی نے رپورٹ کیا کہ مغربی صوبہ غور میں سخت مشقت پر مجبور کچھ بچوں نے کہا کہ ان کے پاس اپنے خاندانوں کے لیے روزی روٹی کمانے کے لیے کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ ان بچوں میں سے ایک محمد حسن سخت سردی میں دریائے ہریروڈ کے کنارے اپنے بڑے بھائی کے ساتھ گاڑی دھو نے کا کام کرتا ہے۔ انہوں نے کہا، ''کام سے روزانہ 100 سے 200 روپے (افغانی کرنسی) کماتے ہیں جس پر ہم ضروری اشیاخریدتے ہیں۔'' انہوں نے مزید کہا کہ اب اس کے اور اس کے بھائی کے لیے تعلیم حاصل کرنے کا وقت تھا لیکن معاشی مسائل کی وجہ سے انہیں کام کرنا پڑتا ہے۔
حسن نے کہا ''ٹھنڈے پانی میں جانا بہت مشکل ہے، ہم جانتے ہیں کہ یہ ہماری صحت کے لیے مضر ہے لیکن ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، اگر ہم اسکول گئے تو ہم کام نہیں کر سکتے اور اگر ہم تعلیم حاصل کر گئے تو ہمارے گھر میں کھانا نہیں بچے گا، ''۔ نثار احمد ایک اور غور کا بچہ ہے، جو ایک دکان پر 100 روپے میں کام کرتا ہے۔ ''پچھلے چار سالوں سے میں 100 روپے میں کام کرتا ہوں، میں پچھلے دو سالوں سے سکول نہیں گیا کیونکہ ہماری معاشی حالت ٹھیک نہیں ہے۔''
غور میں اور بھی بہت سے بچے ہیں جو محنت مزدوری کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ حال ہی میں فیروزکوہ میں محنت مزدوری کرنے والے نوعمر لڑکوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ افغان نیوز ایجنسی نے رپورٹ کیا کہ اس میں شہر میں بھیک مانگنے والی کچھ نوعمر لڑکیاں بھی شامل تھیں۔15 سالہ عبدالرؤف دھات کی دکان میں کام کرتا ہے اور اسے اپنے کام کے لیے روزانہ 100 روپے ملتے ہیں۔ ''میں پچھلے دو سالوں سے دھات کا کام کرتا ہوں، اسکول نہیں گیا، اگر میں اسکول گیا تو میری بہن اور بھائی بھوک سے مر جائیں گے۔''