بنگلہ دیش کے ماہرین نے چین کی توسیع پسندانہ پالیسی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر بنگلہ دیش چین کے لالچ میں آ گیا تو پرانے دوست بھارت کے خلاف ڈریگن کا اقدام خود بنگلہ دیش کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا۔ ان کا کہنا ہے کہ قرض کا لالچ دکھا کر چین بنگلہ دیش کو تزویراتی اور عسکری طور پر بھارت کے خلاف اکسانا چاہتا ہے۔
بنگلہ دیشی میڈیا کے مطابق چین اور بنگلہ دیشی حکومتوں کے درمیان زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں کی دیکھ بھال کے نظام کی تیاری پر معاہدہ طے پا گیا ہے۔ ہندوستھان سماچار سے کئی ماہرین نے اس پر اپنی رائے دی ہے۔ پیش ہیں ان کی گفتگو کے اقتباسات۔
بنگلہ دیش کے سابق وزیر اور پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کی مرکزی جماعت کے چیئرمین غلام محمد (جی ایم) قادر نے کہا کہ میں نے میڈیا میں بھی دیکھا ہے، میں سچ نہیں جانتا اور بھارت کے ساتھ اس طرح غداری کرنا خون سے غداری ہو گی۔ ہندوستان ہندوستانی فوجیوں نے جدوجہد آزادی میں شہادت، ہتھیاروں، پناہ گاہوں، آزادی پسندوں کی تربیت سے ہماری مدد کی ہے۔
میڈیا کے مطابق سویڈن میں قائم تھنک ٹینک اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے اعداد و شمار دیئے ہیں کہ 2017 سے 2020 کے درمیان چین نے بنگلہ دیش کو فوجی برآمدات کا 16فیصددیا۔اس تناظر میں بنگلہ دیش چین کا دوسرا سب سے بڑا اسلحہ استعمال کرنے والا ملک بن گیا ہے۔انھوں نے کہا کہ ملک میں روزمرہ کی ضروریات کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔
اب لوگوں کی قوت خرید سبسڈی کے ذریعے ہے۔ اگر ہم دوسرے ممالک کے مشورے پر اپنے بہترین دوستوں کے ساتھ اسلحے کی دوڑ میں شامل ہوتے ہیں تو ہمیں اس کی قیمت چکانا پڑے گی۔
انہوں نے بنگلہ دیش کی حکومت پر زور دیا کہ وہ چین کے جال میں نہ پھنسے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے خبردار نہ کیا تو مستقبل قریب میں بنگلہ دیش کا حال بھی سری لنکا جیسا ہو گا۔
دریں اثنا، بنگلہ دیش عوامی لیگ کے پریذیڈیم کے رکن جہانگیر کبیر نانک نے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں کی دیکھ بھال کے نظام کو تیار کرنے کے معاہدے کے بارے میں کہا، "زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں کی دیکھ بھال کے نظام کی تیاری پر عوامی لیگ کی حکومت کاچینی حکومت کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں، میڈیا میں جو کچھ پھیلایا جا رہا ہے وہ جھوٹ ہے، اس حوالے سے بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ کی جانب سے بھی وضاحت آ چکی ہے، اس مقصد کے لیے اس قسم کا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔
بنگلہ دیش اسلامی اتحادکے صدر مصباح الرحمن چودھری نے یوکرین پر روس کے حملے کے بارے میں کہا کہ یوکرین بھی 1981 میں روس کا حصہ تھا، جب سوویت یونین نے بھارتی وزیراعظم اندرا کی درخواست پر بنگلہ دیش کے ساتھ آزادی کی جدوجہد شروع کی تھی۔ گاندھی نے تعاون کیا تھا۔ پھر انہوں نے متحد ہو کر ہمارا ساتھ دیا۔ یہ ناقابل قبول ہے کہ آزاد ملک میں اس طرح کی جارحیت جاری رہے گی۔ چین اور پاکستان کے کردار کے بارے میں پوچھے جانے پر ان کا کہنا تھا کہ 'چین اور پاکستان کا کردار کب انسانیت پر مبنی تھا؟ ہماری جدوجہد آزادی کے دوران پاکستان نے بے گناہ لوگوں کو مارا، پھر چین نے اس بنگالی نسل کشی کی حمایت کی۔ نہ صرف حمایت بلکہ ان تمام بے گناہوں کو چین کی طرف سے دی گئی رائفلوں سے مارا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ چین ایغور صوبے میں لاکھوں مسلمانوں پر غیر انسانی تشدد کر رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ روس میں جمہوریت نہیں ہے۔ روس کی حمایت کا مطلب نسل کشی میں حصہ لینا ہے۔ ہمارے وزیراعظم نے اس روسی نسل کشی کی حمایت نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ بھارت یوکرین روس بحران میں ثالثی کرے۔