زلزلے سے تباہ حال یورپ کے قریب آباد مغربی ایشیا کے دو ممالک ترکی اور شام چھ دنوں سے ملبے میں زندگیوں کی تلاش میں مصروف ہیں۔ اب تو اپنوں کی لاشیں دیکھ کر دل دہلا دینے والی چیخیں بھی ٹھنڈی پڑنے لگی ہیں۔ ان ممالک میں 7.8 شدت کے زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے تھے ۔ مرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس تباہی میں اب تک 24 ہزار سے زائد افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ ترکیہ میں 19 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ باقی کا تعلق شام سے ہے۔
عالمی بینک نے زلزلے سے متاثرہ ترکیہ اور شام کے لیے 1.78 بلین ڈالر کی امداد کی منظوری دی ہے۔ یہ رقم راحت اور بچاؤ کے کاموں کے علاوہ تعمیر نو پر خرچ کی جائے گی۔ زلزلے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہر انطاکیہ، شانلی عرفا اور حلب ہیں۔جنوبی وسطی ترکیہ میں انظاکیہ شہر کی آبادی 25 لاکھ کے قریب تھی۔ اس شہر کا بڑا حصہ ملبے میں تبدیل ہو چکا ہے۔مشرق میں واقع شانلی عرفا بھی اسی حالت میں ہے۔ اس شہر کو شامی ثقافت کا اہم مرکز سمجھا جاتا ہے۔حلب شہر بھی کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔
بارش اور برف باری کے درمیان سست روی کا شکار راحت اور بچاؤ کے کام کے دوران ایک ایسا لڑکا بھی برآمد ہواہے جو پیشاب پی کر زندہ رہا۔ ریسکیو ٹیم نے اسے باہر نکال کر اسپتال پہنچا دیا۔ لڑکا عدنان محمد کورکوٹ زلزلے کا مرکز غازی عین تاپ شہر کے قریب پایا گیا۔
غازی عین تاپ کے ارد گرد تقریبا ڈیڑھ کروڑ افراد کی آبادی زلزلے سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ شاید ہی یہاں کا کوئی گھر یا بڑی عمارت نقصان سے بچی ہو۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو زندہ تلاش کرنے کے امکانات کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ہندوستان سمیت کئی ممالک اور بین الاقوامی ایجنسیاں راحت اور بچاؤ کے کاموں میں مصروف ہیں۔
ملبے میں کسی کے زندہ بچ جانے کا تجربہ ریسکیوٹیموں کے لیے خوش کن ثابت ہو تا ہے ۔ ریسکیو چیف اسٹیون بائر نے بتایا کہ 40 سالہ زینپ کہرامن کنکریٹ کے ایک بلاک کے نیچے زندہ پائی گئیں۔ انہیں قریبی اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ اسی طرح ایک 10 دن کے بچے اور اس کی ماں کو، جو چار دنوں سے بری طرح تباہ شدہ گھر میں پھنسے ہوئے تھے، کو جمعہ کے روز بچا لیا گیا۔ انہیں دیکھ کر لوگوں نے اسے خدا کا معجزہ قرار دیا۔