یروشلم،21مئی (انڈیا نیرٹیو)
فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج اور اسلامی تحریک مزحمت 'حماس' کے درمیان جاری لڑائی کے گیارہ روز بعد دونوں فریقین نے جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔گزشتہ شب اسرائیلی کابینہ نے جنگ بندی کی تجویز پر رائے شماری کی۔ رائے شماری کے دوران کثرت رائے سے جنگ بندی کا فیصلہ کیا گیا۔اسرائیلی حکومت کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہےکہ جنگ بندی کی تجویز مصر اور بعض دوسرے ممالک کی طرف سے دی گئی ہے۔ یہ جنگ بندی غیر مشروط ہوگی۔ جنگ بندی مقامی وقت کے مطابق رات دوبجے نافذ ہوجائے گی۔
ادھر فلسطینی گروپوں نے بھی غزہ کے علاقے میں جنگ بندی کی تصدیق کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب دو بجے سے جنگ بندی پرعمل درآمد شروع کردیا گیا ہے۔ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ ہم اس وقت تک جنگ بندی پرعمل درآمد کریں گے جب قابض اسرائیل کرے گا۔ اگر اسرائیل نے جنگ بندی معاہدہ توڑا تو ہم بھی اس پر قائم نہیں رہیں گے۔ادھر مصر کے سرکاری ٹی وی چینل نے جمعرات کی شام کو بتایا تھا کہ فلسطینی مزاحمتی گروپ اور اسرائیل جنگ بندی پر متفق ہوگئے ہیں۔ جنگ بندی مصر صدر عبدالفتاح السیسی کی کوششوں سے عمل میں لائی گئی ہے۔ صدر السیسی جلد ہی فلسطینی اراضی اور اسرائیل کے پاس دو الگ الگ وفود بھیجیں گے تاکہ جنگ بندی معاہدے پرعمل درآمد کیا جاسکے۔اسی سیاق میں اسرائیلی ریڈیو کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل حماس کی قیادت اور اس کے عسکری ونگ کے سربراہ کے خلاف حملے جاری رکھے گا۔ ریڈیو رپورٹ کے مطابق غزہ کی پٹی سے کوئی بھی گولہ یا آتش گیر غبارہ داغاگیا تو اس کا بھرپور جواب دیا جائےگا۔
اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیر دفاع بینی گینٹز نے کہا ہے کہ فوج اب ابھی کسی بھی صورت حال کے لیے الرٹ ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق کسی بھی ممکنہ صورت حال میں اسرائیلی فوج کو تیار رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر دفاع بینی گینٹز جنگ بندی یا فوجی کارروائی جاری رکھنے کا فیصلہ کریں گے۔العربیہ چینل کے نامہ نگار کے مطابق مصرنے فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان فائر بندی کےلیے موثر کوششیں کررہا ہے۔ العربیہ چینل کے مطابق مصر کی طرف سے جنگ بندی کی تجویز پر اسرائیلی کابینہ میں رائے شماری کی گئی۔درایں اثنا حماس کے ایک ذمہ دار نے متبادل فائر بندی کی تجویز پرعمل درآمد کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ رات دو بجے سے فریقین نے جن بندی پرعمل درآمد شروع کردیا ہے۔خیال رہے کہ11 روز قبل غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کی ہونے والی مسلسل بمباری میں اب تک اڑھائی سو فلسطینی شہید اور ڈیڑھ ہزار کے قریب زخمی ہوگئے تھے۔ شہدا اور زخمیوں میں بڑی تعداد معصوم بچوں اور خواتین کی بتائی جاتی ہے۔
جنگ بندی پرعمل درآمد، غزہ میں جشن
فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں گذشتہ گیارہ روز سے جاری لڑائی کے بعد اسرائیل اور حماس نے جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔ جنگ بندی پرعمل درآمد کے بعد رات گئے غزہ میںلوگ خوشی سے سڑکوں پر نکل آئے اور جنگ بندی کی خوشی کا جشن منایا۔جنگ بندی کے اعلان کے ابتدائی چند گھنٹوں کے دوران اسرائیلی فوج کی طرف سے غزہ کی پٹی کسی حملے کی کوئی اطلاع نہیں ملی جب کہ فلسطینیوں کی طرف سے بھی عبرانی ریاست پرمزید کوئی راکٹ نہیں داغا گیا۔ فلسطینی مزاحمت کاروں نے گزشتہ 11 روز میں اسرائیل پر 4300 راکٹ داغے ہیں۔
غزہ میں اسرائیلی فوج کے حملوں کے باعث شہری گھروں کے اندر محصور ہو کر رہ گئے تھے اور عیدالفطر کے موقعے پروہ عیدکی تقریبات بھی نہیں منا سکے ہیں۔فلسطینی وزارت صحت کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ 11 روزہ اسرائیلی جارحیت میں 232 فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔ شہدا میں 65 بچے اور 40 خواتین شامل ہیں جب کہ 1900 شہری زخمی ہوئے ہیں۔ اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس نے گیارہ دن میں 160 فلسطینی جنگجوﺅں کوہلاک کیا ہے۔
یو این سیکریٹری جنرل غزہ پراسرائیل بمباری کے صدمے سے دوچار
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیریس نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج اور حماس سمیت فلسطینی جنگجو گروپوں کے درمیان جاری ”کراس فائر“ بالکل ناقابل قبول ہے اور لڑائی کو فوری طور پر روکا جانا چاہیے۔انھوں نے جمعرات کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ”مجھے اسرائیلی دفاعی افواج کی غزہ میں فضائی اور توپ خانے سے مسلسل بمباری سے گہرا صدمہ پہنچا ہے۔“انھوں نے کہا کہ ”اگر دنیا میں کوئی جہنم زار ہے تو اس وقت یہ غزہ میں بچوں کی زندگیاں ہیں۔“غزہ میں اسرائیلی حملوں میں کم سے کم 230 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ ان میں 65 کم سن بچے ہیں۔
غزہ پر اسرائیل کے فضائی حملوں سے پیدا ہونے والے صورت حال پر غور کے لیے نیجر اورالجزائر نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ہنگامی اجلاس بلانے کی درخواست کی تھی۔یہ دونوں ملک اقوام متحدہ میں بالترتیب اسلامی تعاون تنظیم اور عرب گروپ کے سربراہ ہیں۔انتونیو گوٹیریس نے کہا کہ سرحدپار سلامتی اور انسانی بحران کو ہاتھوں سے نکلنے سے روکنےکے لیے کشیدگی کاخاتمہ ناگزیر ہے۔انھوں نے 1967ءکی سرحدوں کے مطابق تنازع کے دوریاستی حل کے لیے مذاکرات کی بحالی پر زوردیا ہے۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری نے غزہ میں اسرائیل کے فضائی حملوں میں متعدد اسپتالوں کی تباہی کی بھی مذمت کی ہے۔انھوں نے غزہ میں میڈیا کے دفاتر کی میزائل حملوں میں تباہی اور ایک صحافی کی ہلاکت پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔انھوں نے کہا کہ ” مجھے غزہ میں اقوام متحدہ کی تنصیبات کی تباہ کاریوں پرگہرا دکھ پہنچا ہے۔اقوام متحدہ کی جگہوں کو مسلح تنازعات کے وقت بھی تحفظ حاصل ہوتا ہے،انسانی امدادی تنصیبات کا احترام اور تحفظ کیا جانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے لیے انسانی امداد اور عطیات جمع کرنے سے متعلق بہت جلد اپیل کی جائے گی۔انھوں نے اس بات کا بھی اشارہ دیا ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے لیے انسانی فنڈ میں ایک کروڑ40 لاکھ کی رقم بہت جلد جاری کردی جائے گی۔انتونیو گوٹیریس نے واضح کیا کہ ”انسداد دہشت گردی اور ذاتی دفاع کے نام پر تنازع کے فریقوں کی جانب سے تشدد آمیز کارروائیوں کا کوئی جواز نہیں ہے۔انھیں بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت اپنی ذمے داریاں پوری کرنی چاہئیں۔“انھوں نے مقبوضہ بیت المقدس سمیت مغربی کنارے میں اسرائیلی سکیورٹی فورسز اور فلسطینیوں کے درمیان تشدد آمیز جھڑپوں پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس علاقے میں بہت سے فلسطینی خاندانوں کو بے دخلی کا سامنا ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیل کی ایک عدالت نے اسی ماہ یہودی آبادکاروں کو مقبوضہ بیت المقدس کے علاقے شیخ جراح میں فلسطینیوں کے آبائی مکانوں کی جگہوں پر قبضے کی اجازت دے دی ہے۔فلسطینی اس فیصلے کے خلاف سراپااحتجاج بنے ہوئے ہیں اور اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے فلسطینیوں کو مسجد اقصیٰ میں بھی تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔تشدد کے ان واقعات سے غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے تباہ کن حملوں کی راہ ہموار ہوئی تھی اور اس نے 10 مئی کو محاصرہ زدہ فلسطینی علاقوں پر تباہ کن بمباری شروع کردی تھی۔