افغانستان کے ساتھ اپنے سرحدی علاقوں میں پاکستان کی برسوں کی مخاصمت کے نتیجے میں دونوں ممالک سیکیورٹی کی دلدل میں پھنس گئے ہیں۔ تنازعہ کے مرکز میں پاکستانی اقدامات ہیں جن کا مقصد طالبان حکومت کے ذریعہ ڈیورنڈ لائن پر اپنی پوزیشن کو زبردستی تسلیم کرنا ہے۔ پاکستان کی حکومت اور فوجی قیادت جو طالبان کو اپنے تزویراتی مفادات کے تابع سمجھتی تھی، گزشتہ دو سالوں کے دوران حقیقت کی جانچ پڑتال سے گزری ہے۔
متنازعہ ڈیورنڈ لائن پر نئی افغان انتظامیہ کو اپنا موقف تسلیم کرنے پر مجبور کرنے کا وژن بھی سرحد پر ہونے والی باقاعدہ جھڑپوں نے دھندلا کر دیا ہے۔ 2021 میں اقتدار کی منتقلی کے بعد پاک سیکورٹی فورسز کی جانب سے افغان فضائی حدود کی خلاف ورزی اور فائرنگ کے متواتر واقعات کی وجہ سے سرحدی علاقوں میں رہنے والے عام قبائلیوں کی زندگیاں عذاب میں مبتلا ہیں۔
متنازعہ سرحد کے ساتھ باڑ اور سرحدی چوکیوں کا یکطرفہ قیام بھی قبائلیوں کو نشانہ بنانے اور ان کی نقل و حرکت میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال ہوتا رہا ہے۔ باڑ لگانا سرحد کے دونوں طرف آباد پشتون اور بلوچی قبائلی برادریوں کے لیے کافی تکلیف دہ رہا ہے ۔ دونوں طرف کے پہاڑی علاقوں میں رہنے والے قبائلی خصوصاً پشتونوں کو پاک فوج کی مسلسل ناراضگی کا سامنا ہے جو بین الاقوامی سرحد پر دہشت گردی کے خلاف کام کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔
گزشتہ ایک سال سے زائد عرصے سے، افغانستان پاک افواج کی فائرنگ، فضائی حدود کی خلاف ورزی اور دیگر معاندانہ سرگرمیوں کے معاملے پر پاکستان کے ساتھ سرکاری طور پر احتجاج کر رہا ہے۔ جون 2023 میں، افغان وزارت خارجہ (ایم او ایف اے( نے مبینہ طور پر صوبہ خوست کے ضلع گرباز میں سڑک کی تعمیر میں مصروف افغان مزدوروں پر پاکستانی فائرنگ پر احتجاج کیا تھا۔ اسی ماہ کے دوران، افغان وزیر دفاع محمد یعقوب مجاہد نے ڈیورنڈ لائن پر اپنے ملک کے طویل عرصے سے قائم موقف کو ایک ’جعلی لائن‘ قرار دیتے ہوئے دہرایا۔ تاہم، سرحدی خلاف ورزیوں کے متعدد واقعات کو اجاگر کرنے اور یکطرفہ طور پر غیر قانونی فوجی تنصیبات کھڑی کرنے کے باوجود، کابل اسلام آباد کو اپنے تحفظات سے آگاہ کرنے میں ناکام رہا۔
پاک سیکورٹی فورسز نے افغانستان کے پکتیکا، پکتیا اور ننگرہار میں ڈرونز کو فائرنگ اور دھکیلنے کے علاوہ باڑ لگانے، فوجی تنصیبات کے ذریعے زیادتیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔تاہم پاک افواج کے سخت اقدامات طالبان کی جانب سے ردعمل کے بغیر نہیں رہے۔ پاک افواج کی جانب سے کی جانے والی جارحانہ کارروائیوں کا ان سے موثر جواب ملنا شروع ہو گیا ہے۔ گزرتے وقت کےس اتھ مزاحمت نے انتقامی کارروائی کی شکل اختیار کر لی ہے جو وسیع پیمانے پر اور پہنچ میں ہے۔
تحریک طالبان پاکستان کے پاکستان کے اندر حملوں کو بھی قبائلی علاقوں کے لیے پاکستان کی ناکام پالیسی کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔ پچھلے دو سالوں کے دوران، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے قبائلی اضلاع میں ٹی ٹی پی کے حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اگرچہ ابتدائی طور پر ٹی ٹی پی کی کارروائی شمالی بلوچستان کی پشتون پٹی میں مرکوز دکھائی دیتی تھی، لیکن بعد میں یہ صوبے کے بلوچ اکثریتی حصوں (وسطی اور جنوبی بلوچستان) تک پہنچتی دکھائی دی۔
اس کے علاوہ سندھ اور پنجاب سے بھی چند حملے رپورٹ ہوئے۔ کئی سیکیورٹی تجزیہ کار سابق قبائلی علاقوں میں ٹی ٹی پی، بلوچ باغیوں اور مذہبی عسکریت پسند گروپوں کے درمیان کچھ افہام و تفہیم کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔اس پیش رفت سے پاکستان اور اس کی عسکری قیادت کے لیے حالات مزید خراب ہونے کا امکان ہے۔ حالیہ دنوں میں طالبان رہنماؤں کو پاکستان اور اس کی کارروائیوں کے بارے میں اشتعال انگیز بیانات جاری کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ اگرچہ ان میں سے بہت سے بیانات سرکاری نہیں ہیں، لیکن اب ان کا چیلنج کرنے والا لہجہ بالکل واضح ہے۔
عالمی نظروں کے سامنے خود کو دہشت گردی کا شکار بناتے ہوئے پاکستان نے ڈیورنڈ کے معاملے کے ذریعے کابل پر حکمت عملی سے کنٹرول قائم کرنے کی کوشش کی۔ سٹریٹجک غلبے کے اس حصول نے تاہم اسے تشدد کے ایک ایسے بحران کی طرف لے جایا ہے جو تیزی سے اپنی رسائی کو بڑھا رہا ہے۔ طالبان کی جانب سے پاکستانی اقدامات کی عوامی مذمت کے بعد دنیا کو دہشت گردی کا شکار ہونے کے پاک بیانیے میں اب کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی۔