Urdu News

اسلامک اسٹیٹ۔خراسان افغانستان میں طالبان کے لیے  کیسے بنتا جا رہا ہے بڑا خطرہ؟

اسلامک اسٹیٹ خراسان 

کابل، 3؍ جنوری

اسلامک اسٹیٹ خراسان صوبہ ، جو کہ دہشت گرد گروپ داعش کی علاقائی تنظیم ہے، افغانستان میں طالبان کے ساتھ طاقت کی کشمکش میں ہے۔ افغان ڈاسپورہ نیٹ ورک نے رپورٹ کیا کہ یہ گروپ زور پکڑ رہا ہے اور طالبان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، جو بین الاقوامی حمایت بھی حاصل کر رہا ہے، کیونکہ یہ دہشت گردی پر قابو پانے اور انسانی حقوق کے اپنے ریکارڈ کو بہتر بنانے میں ناکام رہا ہے۔

اسلامک اسٹیٹ خراساں  صوبہ  کا ہدف سفارتی مشنوں، بین الاقوامی تنظیموں جیسے کہ اقوام متحدہ اور خطے میں مختلف این جی اوز کو دھمکی دینا ہے۔  اس کا مقصد چین اور امریکہ کے ساتھ طالبان کے بڑھتے ہوئے شوق کو چیلنج کرنا ہے۔

طالبان کو نہ صرف اپنی بالادستی برقرار رکھنا مشکل ہو گا بلکہ بین الاقوامی حمایت حاصل کرنا بھی مشکل ہو گا کیونکہ وہ دہشت گردی پر قابو پانے اور انسانی حقوق کے ریکارڈ کو بہتر بنانے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ دہشت گردی اور جبر سے پرہیز کیے بغیر امن کبھی بھی حقیقت نہیں بن سکتا۔

 حال ہی میں، آئی ایس کے پی نے “لونگن ہوٹل” پر حملہ کیا جس میں اکثر چینی زائرین اور دیگر غیر ملکی شہری آتے ہیں، کچھ مبصرین کے مطابق، یہ حملہ افغانستان میں دہشت گردانہ فسادات کے اگلے مرحلے کا آغاز ہے۔ نہ صرف ہوٹل بلکہ تنظیم نےپاکستان کے چارج ڈی افیئر کو بھی اپنا ہدف بنایا ہے۔

اسلامک اسٹیٹ خراساں  صوبہ  نے پاکستان کے ناظم الامور عبید الرحمان نظامانی کو اپنے سفارت خانے کے اندر ان کی رہائش گاہ پر قتل کرنے کی کوشش کی۔ افغان ڈائاسپورا نیٹ ورک نے تجزیہ کاروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ حملے طالبان حکومت کی اپنی عالمی اسٹریٹجک مصروفیات بشمول اقتصادی مصروفیات کو بڑھانے کی کوششوں کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ ان حملوں نے طالبان کی مجبوریوں کو بے نقاب کیا ہے اور اپنے عالمی شراکت داروں اور اس کی بالادستی کے تحفظ کی اس کی صلاحیت کو کمزور کر دیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سفارتی اداروں کو فول پروف سیکورٹی فراہم نہیں کر سکتا۔

 گزشتہ چند سالوں میں، اسلامک اسٹیٹ خراساں صوبہ نے افغانستان میں اپنے حملوں میں تیزی لائی تھی اور اب وہ ریاست کے سیاسی معاملات میں بھی اہمیت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ دہشت گردانہ حملوں کو ملک میں اپنی موجودگی اور کنٹرول کو بڑھانے کے لیے ایک آسان ہتھیار کے طور پر تلاش کر رہا ہے۔ اگرچہ تنظیم نے اشارہ کیا تھا کہ اس حملے کا مقصد بدلہ لینا اور چین کو سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن پر خبردار کرنا ہے، لیکن دوسرا بنیادی مقصد اگست 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبان حکومت کے لیے بیجنگ کے سفارتی اقدامات کو روکنا ہے۔

 آئی ایس پی کے، جو خود کو طالبان کے متبادل کے طور پر پیش کرتا ہے، اس بات کا خدشہ ظاہر کرتا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکمرانی تیزی سے ناگزیر ہوتی جا رہی ہے اور دنیا آہستہ آہستہ اس اسلام پسند جماعت کے ساتھ دوبارہ رابطے شروع کرنے جا رہی ہے جسے اب تک کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے۔ اس میں طالبان پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ صلح کرکے جہادی نظریہ کو ترک کر رہے ہیں اورمسلمانوں کے مقصد سے غداری کر رہے ہیں۔

افغان ڈاسپورا نیٹ ورک نے رپورٹ کیا کہ اسلامک اسٹیٹ خراساں   صوبہ  اسلام کے اصولوں میں پناہ لے کر اور اس کے تحفظ کے بہانے اپنے اقدامات کے لیے بڑے پیمانے پر حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سے قبل آئی ایس کے پی نے روسی سفارت خانے پر بھی حملہ کیا تھا۔ تنظیم کے دہشت گردانہ حملے زیادہ سے زیادہ تشہیر اور اثر حاصل کرنے کے لیے ایک اچھی طرح سے کی گئی حکمت عملی کا نتیجہ ہیں۔

یہ سفارت خانوں یا شیعہ اور ہزارہ جیسی نسلی اقلیتوں جیسے ہائی پروفائل نشانیوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ حملوں کے سلسلے کا مقصد کابل میں روس، چین اور دیگر بااثر افراد کو مجبور کرنا تھا کہ وہ افغانستان میں اپنی حکمت عملی اور مصروفیات پر نظرثانی کریں۔آئی ایس کے پی طالبان کے ساتھ ہمدردی رکھنے والی بین الاقوامی طاقتوں کی توہین کر رہی ہے۔

پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ افغان ڈائاسپورا نیٹ ورک کی رپورٹ کے مطابق طالبان دیگر دہشت گرد تنظیموں کو ان کارروائیوں سے نہیں روک سکتے جو اس نے اقتدار پر قبضہ کرنے کی حکمت عملی کے طور پر اختیار کی اور لوگوں کو اس کے اسلامی اصولوں اور طریقوں کو قبول کرنے پر مجبور کیا، خواہ وہ چاہے پیچھے ہٹ جائیں۔

Recommended