Urdu News

عمران خان مشترکہ اپوزیشن کی گیند پر کلین بولڈ ہوگئے، کہیں جشن تو کہیں سوگ

عمران خان مشترکہ اپوزیشن کی گیند پر کلین بولڈ ہوگئے

نئی دہلی، 10 اپریل (انڈیا نیرٹیو)

بحیثیت سیاست دان عمران خان کو ہفتہ کی آدھی رات کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں ناقابل فراموش شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں 4 مارچ 1992 کو سڈنی کرکٹ گراؤنڈ میں ایسی ہی شکست ہوئی جسے کپتان عمران خان کبھی نہیں بھول سکتے۔

کرکٹ ورلڈ کپ (1992) میں بھارت اور پاکستان کی ٹیمیں پہلی بار آمنے سامنے تھیں۔ دونوں ٹیمیں ورلڈ کپ کے اس میچ کو جیتنے کے درپے تھیں لیکن پاکستانی ٹیم کے کپتان عمران خان ایک اناڑی کھلاڑی کی طرح صفر پر رن آؤٹ ہو گئے۔ پاکستان نے وہ ورلڈ کپ ضرور جیتا تھا لیکن کپتان عمران بھارت سے ہار کو کبھی نہیں بھول سکتے۔

سیاسی پنڈت اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ورلڈ کپ (1992) کی جیت نے عمران خان کو پاکستان کا بڑا ہیرو بنا دیا۔ کرکٹر عمران اپنے اسی امیج کے بل بوتے پر سیاست کرکے پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ لیکن، قومی اسمبلی میں ان کی جھولی کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ کپتان عمران خان نے کھیل کے میدان میں جو وقار حاصل کیا تھا وہ وزیراعظم عمران خان نے ایک بارپھر کھو دیا۔

قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی۔ جس کے بعد قائد حزب اختلاف (مسلم لیگ ن کے صدر) شہباز شریف نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج پاکستان میں آئین اور قانون کی بحالی چاہتے ہیں۔ اپنی تقریر میں شریف نے یہ عندیہ بھی دیا کہ کسی کے خلاف انتقامی کارروائی نہیں کی جائے گی۔

ایک طرف عمران خان پر پارلیمنٹ میں آئین سے چھیڑ چھاڑ کا الزام لگایا جا رہا تھا تو دوسری طرف وہ تمام اپوزیشن جماعتوں کو سیاسی سازش میں ملوث قرار دے رہے تھے۔ اس سے عوام میں کنفیوڑن بڑھ گئی۔ دو دن پہلے جب یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو کافی قیاس آرائیاں ہوئیں۔ سیاسی بے صبری کے عالم میں پاکستانی عوام سپریم کورٹ کی طرف نظریں جمائے ہوئے تھے۔

بالآخر عمران خان مشترکہ اپوزیشن کی گیند پر کلین بولڈ ہوگئے۔بطور وزیر اعظم انہوں نے اپنی غلطی دہرائی اور انہیں عہدہ چھوڑنا پڑا۔عمران خان کرکٹ کے میدان میں اپنے جارحانہ انداز کے لیے جانے جاتے تھے لیکن سیاست میں ان کی چال ناکام رہی۔ اپوزیشن جماعتوں کو دھمکانے کی حکمت عملی ان کے کام نہ آئی۔

پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر بھانو پرتاپ کا کہنا ہے کہ عمران خان مسلسل سیاست کی طرف راغب رہے ہیں لیکن انہوں نے ایک طالب علم کی طرح سیاست سیکھنے پر زور نہیں دیا بلکہ سیاست کو صاحب کے انداز میں سیکھا اور سمجھا۔ وہ یہ نہیں سمجھ سکے کہ اقتدار کو ٹھکرا کر بھی کوئی بڑا سیاستدان بن سکتا ہے۔ ایک پشتون کرکٹر ناکام سیاستدان ثابت ہوا۔

Recommended