Urdu News

عمران خان نے حقانی نیٹ ورک کی حمایت، امریکہ کے حوالے سے پاکستانی وزیر اعظم نے کیا کہا؟

پاکستانی وزیراعظم عمران خان

طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد اب پاکستان کھل کر دنیا کے سامنے آچکا ہے۔ گزشتہ ماہ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے عوامی سطح پر طالبا ن کی تعریف کی تھی۔ اب پاکستان چاہتا ہے کہ طالبان کو سمجھنے کے لیے دنیا کچھ وقت دے۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے دہشت گرد نیٹ ورک حقانی کے بارے میں امریکہ کی سمجھ پر سوال اٹھایا ہے۔

سی این این کو دیے گئے ایک انٹرویو میں عمران خان نے کھل کر کہا ہے کہ 'امریکہ حقانی نیٹ ورک کو کبھی نہیں سمجھ سکتا'۔ حقانی نیٹ ورک کی تصویر کو بہتر بنانے کے لیے انہوں نے کہا کہ حقانی پاکستان کا پشتون قبیلہ ہے۔ یہ لوگ مجاہدین تھے جنہوں نے سوویتوں کے خلاف جنگ لڑی۔ یہ (حقانی نیٹ ورک) پاکستان میں پناہ گزین کیمپوں میں شروع ہوا۔ دراصل عمران خان پاکستان اور حقانی نیٹ ورک کے درمیان تعلقات کو چھپانے کی کوشش کر رہے تھے۔

حامد میر نے کھولی پول

پاکستانی صحافی حامد میر نے عمران خان کے حقانی کو ایک قبیلے کے طور پر پیش کر نے کی تردید کی ہے۔ انہوں نے ٹویٹ کیا اور کہا۔ ابھی ابھی وزیراعظم عمران خان کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ حقانی افغانستان کا ایک قبیلہ ہے۔ یہ کوئی قبیلہ نہیں ہے۔ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹکKPK کے تمام طلباحقانی کہلاتے ہیں۔ ان میں جلال الدین حقانی بھی شامل ہیں جنہوں نے سوویت یونین کو شکست دینے میں بڑا کردار ادا کیا۔

عمران خان انٹرویو کے دوران ہندوستان کو لے کر امریکہ کی پالیسی پر ایک بڑی بات کہی ہے۔ عمران خان نے کہا کہ ۔’ہم امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں‘ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد امریکہ کے ساتھ تعلقات پر عمران خان نے کہا کہ میں نے جو بائیڈن سے بات نہیں کی۔ انہوں نے کہا – امریکہ کو ہمارے ساتھ وہی تعلق رکھنا چاہیے جیسا اس نے ہندوستان کے ساتھ رکھیں ہیں۔

دراصل ، جو بائیڈن کو امریکہ کے صدر کا عہدہ سنبھالے کئی ماہ گزر چکے ہیں ، لیکن انہوں نے ابھی تک پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو فون نہیں کیا۔ ایسی صورت حال میں پاکستانی انتظامیہ میں مایوسی ہے۔ پاکستانی این ایس اے نے یہاں تک کہا تھا کہ امریکی صدر کی جانب سے پاکستانی وزیر اعظم کو فون نہ کرنا میری سمجھ سے باہر ہے۔ پاکستان کو امید تھی کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے تشکیل دینے کے بعد امریکہ اس پر توجہ دے گا لیکن اب تک ایسا نہیں ہوا۔

Recommended