طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد اب پاکستان کھل کر دنیا کے سامنے آچکا ہے۔ گزشتہ ماہ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے عوامی سطح پر طالبا ن کی تعریف کی تھی۔ اب پاکستان چاہتا ہے کہ طالبان کو سمجھنے کے لیے دنیا کچھ وقت دے۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے دہشت گرد نیٹ ورک حقانی کے بارے میں امریکہ کی سمجھ پر سوال اٹھایا ہے۔
سی این این کو دیے گئے ایک انٹرویو میں عمران خان نے کھل کر کہا ہے کہ 'امریکہ حقانی نیٹ ورک کو کبھی نہیں سمجھ سکتا'۔ حقانی نیٹ ورک کی تصویر کو بہتر بنانے کے لیے انہوں نے کہا کہ حقانی پاکستان کا پشتون قبیلہ ہے۔ یہ لوگ مجاہدین تھے جنہوں نے سوویتوں کے خلاف جنگ لڑی۔ یہ (حقانی نیٹ ورک) پاکستان میں پناہ گزین کیمپوں میں شروع ہوا۔ دراصل عمران خان پاکستان اور حقانی نیٹ ورک کے درمیان تعلقات کو چھپانے کی کوشش کر رہے تھے۔
"None of us can predict where Afghanistan goes from here. But Taliban would clearly want int'l acceptability for what they have said so far. We should incentivize them & push them in the right direction for sake of people of Afghanistan,"
PM @ImranKhanPTI, interview to @BeckyCNN pic.twitter.com/Ur7p6cPhYT
— Prime Minister's Office, Pakistan (@PakPMO) September 15, 2021
حامد میر نے کھولی پول
پاکستانی صحافی حامد میر نے عمران خان کے حقانی کو ایک قبیلے کے طور پر پیش کر نے کی تردید کی ہے۔ انہوں نے ٹویٹ کیا اور کہا۔ ابھی ابھی وزیراعظم عمران خان کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ حقانی افغانستان کا ایک قبیلہ ہے۔ یہ کوئی قبیلہ نہیں ہے۔ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹکKPK کے تمام طلباحقانی کہلاتے ہیں۔ ان میں جلال الدین حقانی بھی شامل ہیں جنہوں نے سوویت یونین کو شکست دینے میں بڑا کردار ادا کیا۔
عمران خان انٹرویو کے دوران ہندوستان کو لے کر امریکہ کی پالیسی پر ایک بڑی بات کہی ہے۔ عمران خان نے کہا کہ ۔’ہم امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں‘ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد امریکہ کے ساتھ تعلقات پر عمران خان نے کہا کہ میں نے جو بائیڈن سے بات نہیں کی۔ انہوں نے کہا – امریکہ کو ہمارے ساتھ وہی تعلق رکھنا چاہیے جیسا اس نے ہندوستان کے ساتھ رکھیں ہیں۔
دراصل ، جو بائیڈن کو امریکہ کے صدر کا عہدہ سنبھالے کئی ماہ گزر چکے ہیں ، لیکن انہوں نے ابھی تک پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو فون نہیں کیا۔ ایسی صورت حال میں پاکستانی انتظامیہ میں مایوسی ہے۔ پاکستانی این ایس اے نے یہاں تک کہا تھا کہ امریکی صدر کی جانب سے پاکستانی وزیر اعظم کو فون نہ کرنا میری سمجھ سے باہر ہے۔ پاکستان کو امید تھی کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے تشکیل دینے کے بعد امریکہ اس پر توجہ دے گا لیکن اب تک ایسا نہیں ہوا۔