مقبوضہ بیت المقدس،11اپریل(انڈیا نیرٹیو)
گزشتہ منگل کو بحیرہ احمر میں ایرانی بحری جہاز’ساویز‘ جہاز کو نشانہ بنانے کے بعد جاری کردہ ایک اسرائیلی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل ایران کے ساتھ سمندری محاذ آرائی بڑھانے کی تیاری کر رہا ہے۔اس رپورٹ کو جو سرکاری نشریاتی ادارے 'کان 11' کے ذریعہ نشرکی گئی ہے میں کہا گیا ہے کہ اندازوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ایرانی ردعمل اور سمندری محاذ آرائی میں اضافے کے امکان کے لیے تیاری کر رہی ہے۔
اسرائیلی چیف آف اسٹاف ایوو کوچاوی اپنے امریکی ہم منصب سے ملاقات، ایران کے متنازع جوہری پروگرام میں امریکا کی واپسی اور دیگر امور پر بات چیت کریں گے اور ایران کےمعاملے میں اسرائیل کے سلامتی کے خدشات کا اظہار کریں گے۔ایرانی جوہری معاہدے پر امریکا کی واپسی کے بارے میں اسرائیلی انتباہات جاری ہیں۔ اسی تناظر میں اسرائیلی انٹیلی جنس سروس 'موساد' کے سربراہ 'یوسی کوہن' آنے والے دنوں میں ایک سرکاری وفد کے ساتھ امریکا پہنچیں گے۔ یوسی کوہن ایرانی سرگرمیوں کے بارے میں امریکی حکام کو شواہد پیش کریں گے اور یہ بتائیں گے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام سے متعلق معلومات کو چھپا رہا ہے۔'العربیہ' کو معلوم ہوا کہ موساد چیف 'یوسی کوہن' خطے میں ایران کی فوجی سرگرمیوں سے متعلق انٹلی جنس فائل کے ساتھ ساتھ تہران کے فوجی جوہری منصوبے سے متعلق پیشرفت پر بھی بات چیت کریں گے۔
امریکہ میں "موساد" کے سربراہ کے ایجنڈے میں ایران کو مکمل طور پر یورینیم کی افزودگی سے روکنا، جدید سنٹری فیوجز کی تیاری کو روکنا اور بلا استثنیٰ تمام ایٹمی تنصیبات عالمی توانائی ایجنسی'آئی اے ای اے' کے معائنے کے لیے کھلونا ہے۔توقع ہے کہ شام ، عراق اور یمن میں ایرانی پوزیشن اور سرگرمی کو روکنے ، ایران کو دنیا بھر میں اسرائیلی مفادات کو نشانہ بنانے کے ساتھ بیلسٹک میزائل منصوبے کو روکنے اور اس پر پابندیاں برقرار رکھنے پر بھی بات چیت کی جائے گی۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ پچھلے تین برسوں کے دوران اسرائیل نے ایران نے اپنے ملیشیاوں کے لئے مالی اعانت اور اسلحہ سازی کے منصوبوں کو کئی ہڑتالوں کا نشانہ بنایا ہے۔واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ کے مطابق اسرائیلی فوج نے شام میں ایرانی مقامات پر تقریبا ایک ہزار فضائی حملے کیے ہیں۔ان حملوں کے نتیجے میں پاسداران انقلاب کی تہران سے دمشق جانے والی پروازوں کے ذریعے حزب اللہ ملیشیا کو رقم اور اسلحہ بھیجنے کی کوششوں میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔سنہ 2018ءکو امریکہ کی جانب سے ایران پر عاید کی گئی اقتصادی پابندیوں کے نتیجے میں بھی تہران کو مالی طور پر مشکلات سے دوچار کرنے کے ساتھ خطے میں تہران کی پراکسی قوتوں تک رقوم اور اسلحہ کی منتقلی میں بھی مشکلات پیش آئیں۔