Urdu News

جاپان میں خود کشیوں کی روک تھام کےلیے ’وزیر تنہائی‘ کا تقرری

جاپان میں خود کشیوں کی روک تھام کےلیے ’وزیر تنہائی‘ کا تقرری


جاپان میں خود کشیوں کی روک تھام کےلیے ’وزیر تنہائی‘ کا تقرری

ٹوکیو،26فروری(انڈیا نیرٹیو)

جاپانی وزیر اعظم یوشی ہیڈے سوگا کی کابینہ نے انیس فروری کو ایک اجلاس میں فیصلہ کیا کہ ملک میں بعض معاشرتی مسائل کے تناظر میں ایک نئے وزیر کی تقرری ضروری ہو گئی ہے اور یہ وزیر پوری طرح شہریوں میں احساس تنہائی کو کم کرنے پر توجہ دے گا۔

اس وزیر کی ضرورت اور اس کی ذمہ داریوں میں کورونا کی وبا کے باعث شہریوں میں اکیلے پن کے احساس سے پیدا ہونے والے ڈیپریشن کے نتیجے میں خود کشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنا زیادہ اہم بتایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اسی وزیر کو بچوں میں بڑھتی ہوئی غربت کا سدباب بھی کرنا ہو گا۔

جاپان میں گزشتہ گیارہ برسوں میں خود کشی کے رجحان میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے کی ایک بڑی وجہ ماہرینِ سماجیات نے کورونا کی وبا سے پیدا ہونے والی بحرانی صورتِ حال بھی بتائی ہے۔

خود کشی کے رجحان کو کنٹرول کرنے کے لیے وزیر اعظم یوشی ہیڈے سوگا نے اپنی سیاسی جماعت لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے سیاستدان اور رکن پارلیمنٹ ٹیٹسوشی ساکاموٹو کو ملک کا اولین ’وزیرِ تنہائی‘ مقرر کیا ہے۔

ٹیٹسوشی ساکاموٹو پہلے ہی ملک میں زوال پذیر شرح پیدائش کو بہتر بنانے کی وزارت کے نگران سربراہ بھی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی ذمہ داریوں میں علاقائی معیشت کو مضبوط بنانا بھی شامل ہے۔

کورونا وائرس سے پھیلنے والی مہلک وبا اور لاک ڈاون نے جاپانی معاشرت پر خاصے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان اثرات کی وجہ سے جاپانی قوم میں پہلے سے موجود خود کشی کے رویے کو مزید تقویت ملی ہے۔

عام لوگوں میں احساسِ تنہائی زیادہ ابھر کر سامنے آیا ہے۔اپنی تقرری کے بعد ٹیٹسوشی ساکاموٹو نے کہا کہ سوگا حکومت نے جاپانی معاشرے میں احساسِ تنہائی کے بڑھنے کو قومی اہمیت کا حامل ایک مسئلہ سمجھا ہے۔ انہوں نے کورونا وائرس کی وبا کے دوران جاپانی خواتین میں خود کشی کے رجحان کو بہت زیادہ اور انتہائی افسوس ناک قرار دیا۔

ٹیٹسوشی ساکاموٹو نے اپنا منصب سنبھالنے کے بعد پہلی پریس بریفنگ میں کہا کہ وزیر اعظم سوگا نے انہیں واضح ہدایت کی ہے کہ وہ ہر عمر کے شہریوں میں احساسِ تنہائی کو کم سے کم کرنے کے لیے ایک قابلِ عمل لیکن جامع حکمتِ عملی مرتب کریں۔

ساکاموٹو نے کہا کہ فوری طور پر اس حوالے سے کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے اور سماجی اکیلے پن اور تنہائی کے رویوں کی نشاندہی کا کام شروع ہو چکا ہے۔ ساکاموٹو نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جلد ہی ایسے افراد کے تحفظ کی خاطر انہیں ’سماجی لڑی میں پرونے‘ کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔سن 2020 میں اکتوبر کے مہینے تک جاپان میں آٹھ سو اسی خواتین خود کشی کر چکی تھیں۔

یہ تعداد سن 2019 کے مقابلے میں ستر فیصد زیادہ تھی۔ اس صورت حال کی ایک بڑی وجہ کورونا لاک ڈاون میں نوکریوں کا نا ہونا بھی بتائی گئی تھی۔جاپان میں کورونا وائرس کی وبا سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد سات ہزار پانچ سو چوراسی ہے۔ اس وبا کی لپیٹ میں ا?نے والے افراد کی تعداد چار لاکھ تیس ہزار کے قریب ہے۔

دوسری جانب ایک ریسرچ کے مطابق یورپی یونیں کی رکن ریاستوں میں کورونا کی وبا کے دنوں میں بزرگ افراد کے علاوہ تیس ملین سے زائد نوجوانوں کو بھی تنہائی کا شکار ہونا پڑا۔75 ملین لوگوں کو ایک ماہ میں ایک دفعہ دوستوں یا خاندان کے افراد سے ملاقات کا موقع میسر آتا تھا، اور اب وہ بھی تقریباًختم ہو چکا ہے۔

تنہائی کی شدید صورت حال پر قابو پانے کے لیے برطانوی حکومت نے بھی کورونا کی وبا سی قریب دو سال قبل سن 2018 میں ایک خصوصی وزارت قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کو مثال بناتے ہوئے جرمن سیاستدانوں نے بھی اپنے ملک میں ایسا کیے جانے کی حمایت کی ہے۔

Recommended