مقبوضہ بیت المقدس،16نومبر(انڈیا نیرٹیو)
انٹیلی جنس کے سابق وزیر اور اسرائیلی کنیسٹ کے رکن ایلی کوہن کے بیانات نے اردن کے عوام اور سیاسی حلقوں میں سخت بے چینی پیدا کی ہے جس کے بعد اردنی پارلیمنٹ نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اسرائیلی وزیر نے کہا تھا کہ وہ اردن کو فلسطینیوں کے لیے ایک متبادل وطن سمجھتے تھے۔ اردنی حکومت اسرائیلی وزیر کے اس متنازع بیان پر خاموش ہے۔ جب اس حوالے سے اردنی وزارت خارجہ سے استفسار کیا گیا تو اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا گیا۔کوہن کا خیال تھا کہ "اردن فلسطینی ریاست ہے کیونکہ اس کے باشندوں کی اکثریت فلسطینیوں پر مشتمل ہے اور سمندر سے دریائے اردن تک یہودی ریاست اسرائیل کے لوگوں کی ہے۔یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل کے سابق وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دور میں کشیدگی کے بعد اردن اور اسرائیل کے تعلقات میں غیر معمولی بہتری دیکھی جا رہی ہے۔
ان بیانات پر سرکاری خاموشی نے سوشل میڈیا پر اور اردن کی پارلیمنٹ کے ایوان میں غصے کے ردعمل کو جنم دیا۔ اردنی رکن پارلیمنٹ صالح العرموطی نے ان بیانات کو اردن کی سلامتی کے لیے خطرہ، اس پر صریحاً حملہ اور وادی عربہ معاہدے کے لیے ایک دھچکا قرار دیا۔ عرموطی نے ایک بار پھر اپنے ملک کی حکومت سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے، اسرائیل کے ساتھ کیے گئے معاہدے منسوخ کرنے اور یہ معاملہ بین الاقوامی فورمز پر اٹھانے کا مطالبہ کیا۔اردن کی پارلیمنٹ نے اس سے قبل اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کی منسوخی اور عمان میں اسرائیلی سفارت خانے کو بند کرنے کے لیے تقریباً 70 یادداشتوں پر دستخط کیے تھے لیکن حکومت نے ان میں سے کسی پرعمل درآمد نہیں کیا۔
اسرائیلی میڈیا اسرائیلی شخصیات کے اردن کے بارے میں اشتعال انگیز بیانات اور موقف سے بھرا پڑا ہے۔تقریباً ایک سال قبل اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کی زمینوں کو ضم کرنے اور ان پر اپنی خود مختاری مسلط کرنے کے اعلان کی وجہ سے کشیدہ ماحول میں اسرائیلی دانشورایڈی کوہن نے اردن کی عسکری صلاحیتوں پر سوال اٹھایا تو اردن میں اس پر سخت رد عمل سامنے آیا۔ کوہن نے اس وقت کہا تھا کہ خدا نہ کرے اگر اردن کے ساتھ جنگ چھڑ گئی،توہم تین گھنٹے میں دو ٹینکوں کے ساتھ اردن پر قبضہ کر لیں گے۔"یروشلم پوسٹ" اخبار نے اس سے قبل 2016 میں اردن کے شاہ عبداللہ دوم پر تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ ان کی اقتدار میں موجودگی اسرائیل کے مفادات کے لیے خطرہ ہے۔ اردن کا بادشاہ ہمارا دوست نہیں ہے، درحقیقت وہ اور ان کی حکومت ہمارے لیے خطرہ ہے۔ یہ کہ اردن کی حکومت مسئلے کا حصہ ہے۔