شدید اقتصادی بحران کے باعث برطانیہ میں سیاسی بحران ایک بار پھر گہرا ہو گیا
معاشی صورتحال پر قابو نہ پانے کے باعث برطانیہ میں سیاسی بحران ایک بار پھر گہرا ہو گیا ہے۔ برطانوی وزیراعظم لز ٹرس نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ وہ صرف 45 دن کے لیے برطانیہ کی وزیر اعظم رہ سکیں۔
بورس جانسن کے مستعفی ہونے کے بعد کنزرویٹو پارٹی کے نئے رہنما کے انتخاب میں ہندوستانی نڑاد رشی سنک کو شکست دے کر برطانیہ کی وزیر اعظم بننے والی لز ٹرس صرف 45 دن تک اس عہدے پر رہ سکیں۔ انہوں نے 6 ستمبر 2022 کو برطانوی وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا۔
ادھر برطانیہ میں شدید معاشی بحران کی وجہ سے حالات ان کے قابو میں نہیں آ رہے تھے۔ ان کے وزیر خزانہ قواسی قوارٹینگ اور وزیر داخلہ سویلا بریومین کو بھی مستعفی ہونا پڑا۔
اس کے باوجود حالات میں بہتری نہ آئی تو لز ٹرس کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ چھوڑنا پڑا۔ اس کے ساتھ وہ برطانیہ کی تاریخ میں سب سے کم مدت تک رہنے والی وزیر اعظم بن گئی ہیں۔ جنگ بندی سے پہلے ٹوری پارٹی کے جارج کیننگ 1827 میں 119 دن تک برطانیہ کے وزیر اعظم رہے۔
اس سے قبل برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کی جگہ لینے کے لیے ہونے والے انتخاب میں اس وقت کی برطانوی وزیر خارجہ لز ٹرس نے ہندوستانی نڑاد رشی سنک کو شکست دی تھی۔
بورس جانسن کے استعفیٰ کے بعد برطانیہ میں کنزرویٹو پارٹی کے نئے لیڈر کے انتخاب کی دوڑ میں شامل سابق وزیر خزانہ اور ہندوستانی نڑاد رشی سنک اور اس وقت کے وزیر خارجہ لز ٹرس کے درمیان مقابلہ تھا۔
برطانیہ کی حکمران کنزرویٹو پارٹی کے 160,000 ووٹروں میں سے 57 فیصد نے لز ٹرس کی حمایت کی۔ 43 فیصد لوگ رشی سنک کے ساتھ تھے۔ اس سے یہ بھی واضح تھا کہ رشی سنک نے اس الیکشن میں لز ٹرس کو سخت ٹکر دی ہے۔
لِز ٹرس کو کنزرویٹو پارٹی کے سابقہ لیڈروں میں سے کچھ کے سخت ترین مقابلے کا سامنا تھا اور انہیں دوسرے فاتحین کے مقابلے میں کم حمایت حاصل تھی۔