پاکستان میں ایک ہندو نابالغ لڑکی کی تبدیلی مذہب کے بعد شادی
کراچی ، 18 مارچ (انڈیا نیرٹیو)
پاکستان میں ایک نابالغ لڑکی کااغوا اورزبردستی اس کی شادی کا واقعہ پیش آیا ہے۔ اطلاع کے مطابق واقعہ صوبہ سندھ کے ضلع کشمورمیں سامنے آیا ہے۔ 13 سالہ کویتا کو اغوا کے بعد اسے شادی کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ اس معاملے میں ، متاثرہ لڑکی کے والد نے رپورٹ درج کروائی تھی۔
شکایت کے مطابق پانچ افراد نے پستول دکھاکر بچی کو اس کے گھر سے اغوا کیا۔ رپورٹ درج کرنے کے بعد ، پولیس کو بچی گھوٹکی ضلع کے بھارچندی درگاہ سے مل گئی۔ وہاں اس نے اغوا کاروں میں سے ایک مشتاق سے شادی کرائی گئی۔
بچی کے وکیل سعید احمد کے مطابق ، اس نے پولیس کو بیان دیا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے گئی تھی اور اس نے مسلم مذہب اختیار کیا ہے اور ایک مسلم نوجوان سے شادی کرلی ہے۔ صرف یہی نہیں ، اس نے اپنا نام ام حنا رکھ لیا ہے۔ اس معاملے میں ، عدالت نے پولیس کو مکمل رپورٹ دینے کی ہدایت کی ہے۔ پاکستان میں ہندو لڑکیوں کے مذہب تبدیل ہونے اور ان کی شادی کے معاملات میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔
پاکستان کے صوبہ سندھ کی ایک عدالت نے مبینہ طور پر مذہب کی جبری تبدیلی کے ایک کیس میں ایک ہندو لڑکی کو چائلڈ پروٹیکشن سینٹر بھیج دیا ہے۔لڑکی نے عدالت کے سامنے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس نے اپنی مرضی سے بغیر کسی دباؤ کے مذہب تبدیل کیا ہے۔ دوسری جانب لڑکی کے والد کا الزام ہے کہ اسے چند افراد اٹھا کر لے گئے تھے جس کے بعد اس کا مذہب زبردستی تبدیل کروایا گیا ہے۔
شمالی سندھ کے ضلع کشمور کندھ کوٹ کی تحصیل تنگوانی کے سول جج منور پیرزادہ کی عدالت میں بدھ کو لڑکی کو پناہ گاہ سے پولیس پہرے میں عدالت میں پیش کیا گیا جہاں عدالت نے لڑکی کا بیان قلم بند کیا۔لڑکی کا کہنا تھا کہ اس نے اپنی مرضی سے درگاہ بھرچونڈی پہنچ کر اپنا مذہب تبدیل کیا اور اب اس کا نام اُم حنا ہے اور یہ کہ تبدیلی مذہب کے لیے اس پر کوئی دباؤ نہیں تھا۔لڑکی کے والدین کی جانب سے ایڈووکیٹ عبدالغنی بجارانی نے عدالت سے گزارش کی کہ لڑکی نابالغ ہے۔ عدالت سے یہ درخواست بھی کی گئی ہے کہ ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جائے جو اس بات کا تعین کرے کہ کہیں لڑکی سے جنسی زیادتی تو نہیں کی گئی۔
یاد رہے کہ سندھ میں 18 سال سے کم عمر میں شادی پر پابندی ہے اور اس کے مرتکب شخص اور اس میں مددگار کے خلاف مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے۔وکیل عبدالغنی بجارانی کا الزام ہے کہ سندھ چائلڈ میریج ریسٹرینٹ ایکٹ کی وجہ سے نکاح نامہ پیش نہیں کیا جا رہا ہے اس لیے انھوں نے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی درخواست دی ہے۔ایک تحریری درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں منتقل کیا جائے۔ ایڈووکیٹ عبدالغنی بجارانی کے مطابق کم عمر افراد کا اغوا دفعہ 364 کے تحت اے ٹی اے کا جرم ہے لہذا ایف آئی آر میں یہ شامل کر کے مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلایا جائے۔
وکیل کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ لڑکی نامحرم کے ساتھ نہیں رہ سکتی لہذا اس کو والدین کے حوالے کیا جائے یا تو پھر چلڈرن شیلٹر ہوم منتقل کیا جائے جس کے بعد عدالت نے لڑکی کو سکھر شیلٹر ہوم منتقل کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔پیر آف بھرچونڈی کی طرف سے ایڈووکیٹ سعید احمد بجارانی پیش ہوئے جنھوں نے بعد میں صحافیوں کو بتایا کہ عدالت نے لڑکی کی اکیلے میں والدین سے ملاقات کرائی جس کے بعد بیان قلمبند کیا گیا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ لڑکی نے کہا کہ وہ پیر آف بھرچونڈی جانا چاہتی ہے تاکہ وہ اپنی اسلامی تعلیم جاری رکھ سکے۔
ایڈووکیٹ سعید احمد کے مطابق انھوں نے بھی یہی درخواست کی ہے کہ لڑکی کو درگاہ بھرچونڈی بھیجا جائے کیوں کہ وہ ایک ’اہم اسلامی ادارہ‘ ہے لیکن عدالت نے حکم دیا ہے کہ جب تک پولیس کی تحقیقات مکمل نہیں ہوجاتی لڑکی کو چائلڈ پروٹیکشن سینٹر بھیجا جائے گا۔
’سفید رنگ کی کار میں اغوا کیا گیا‘
تنگوانی تھانے میں لڑکی کے والد تخت مل نے ایف آئی آر درج کرائی تھی کہ 9 مارچ کو شام چار بجے ایک سفید رنگ کی کار ان کے گھر کے باہر آکر رکی جس میں سے پانچ افراد اترے جن میں مشتاق، بھورل اور دیگر شامل تھے۔ ان کے پاس ٹی ٹی پستول تھے، انھوں نے انھیں ڈرایا کہ کوئی مزاحمت نہ کرے وہ لڑکی کو لیکر جائیں گے اور اس کا ’مشتاق سے نکاح کرائیں گے‘۔
ایف آئی آر کے مطابق مشتاق نے 13 سالہ لڑکی کو ’بازو سے پکڑا اور ساتھ لیکر کار میں سوار ہوئے اور نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہوگئے‘۔والد کو شبہ ہے کہ ان کی بیٹی کو شادی کے لیے اغوا کیا گیا ہے۔
مذہب تبدیل کرنے کی ویڈیو وائرل
اس مقدمے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں نظر آتا ہے کہ درگاہ بھرچونڈی کے پیر ایک چارپائی پر بیٹھے ہیں جبکہ لڑکی زمین پر موجود ہے اور آس پاس لوگ کھڑے ہیں جو تمام مرد ہیں۔پیر آیات پڑھتے ہیں اور لڑکی دھیمی آواز میں ان کو دہراتی ہے، اس کے بعد پیر لڑکی پر سے نوٹ وار کر اپنے مریدوں کے حوالے کرتا ہے۔
لڑکی کے والدین سے ملاقات نہیں کرنے دی گئی
منگل کو پیر آف بھرچونڈی کے حمایتیوں کے ہمراہ لڑکی کو عدالت میں پیش کیا گیا جس سے والدین لاعلم تھے۔ عدالت نے مدعی والدین کی عدم موجودگی کی وجہ سے سماعت بدھ تک ملتوی کردی تھی۔لڑکی کو ایک خستہ حال سیف ہاؤس میں رکھا گیا تھا جہاں درگاہ بھرچونڈی کے مریدوں کی موجودگی اور کھانا لانے کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ اطلاعات کے مطابق جب لڑکی کے والد اور والدہ ملاقات کے لیے وہاں گئے تو انہیں مبینہ طور ہر ملاقات کرنے نہیں دی گئی تھی۔
ان ویڈیوز پر سخت تنقید کی جا رہی ہے
پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک رہنما سکھدیو کا کہنا تھا کہ لڑکی کا جبری مذہب تبدیل کیا گیا ہے، وہ ذاتی طور پر اس کیس کو دیکھ رہے ہیں اور خواتین کی ترقی کی وزرات کی صوبائی وزیر شہلا رضا سے رابطے میں ہیں۔
لڑکی کے مبینہ اغوا اور مذہب کی تبدیلی کے خلاف کندھ کوٹ میں ہندو برداری کے علاوہ سیاسی جماعتوں نے بھی احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔
لڑکی کے گھر میں آگ لگنے کا واقعہ
Ghotki, Sindh. A 13-year-old #Hindu girl named Kavita Bai was allegedly kidnapped by a man of Bahalkani tribe, forcibly converted to Islam by #Barelvi cleric Mian Mithoo, and then married off to her abductor. pic.twitter.com/c0Y8a91gB0
— SAMRI (@SAMRIReports) March 10, 2021
سوشل میڈیا پر بحث اور میڈیا میں خبروں کے بعد تین روز قبل لڑکی کے گھر میں آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا تھا۔لڑکی کے کزن شہزاد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ رات کو تقریباً دو بجے چار لوگ آئے، انھوں نے لڑکی کے والد کو دھمکی دی کے خاموش رہیں اور میڈیا سے بھی رابطہ نہ کریں۔
شہزاد کے مطابق انھوں نے وہاں موجود سوکھی گھاس کو آگ لگا دی جس نے گھر کو لپیٹ میں لے لیا۔ شہزاد کے مطابق ان کے چچا کا واحد گھر کرائے پر حاصل کیا گیا تھا۔
شہزاد کے مطابق ان کے چچا چائے پاپے فروخت کر کے گزر بسر کرتے ہیں۔ایس ایس پی امجد شیخ نے بی بی سی کو بتایا کہ آگ لگائے جانے کا دعویٰ درست نہیں اور ان کے مطابق آگ پر دیگچی رکھی ہوئی تھی جس میں سے آگ بھڑکنے سے باعث کچھ اشیا جل گئیں اور یہ کہ اب وہاں پولیس چوکی بھی قائم ہے۔ شہزاد کا کہنا تھا کہ پولیس چوکی اس واقعے کے بعد قائم کی گئی تھی۔