فلسطینی بچوں کی گرفتاریوں اور ان پر اسرائیلی فورسز کے تشدد نے فلسطینی بچوں کے لیے خوف کی فضا میں اضافہ کر دیا۔ والدین کو نئی انتہائی قوم پرست حکومت کی موجودگی میں فکر مندی نے گھیر لیا۔
پچھلے سال ایسے سینکڑوں واقعات پیش آئے جن میں پولیس یا دوسری اسرائیلی فورسز نے بغیر وارنٹ یا سمن کے اچانک گرفتار کیا اور ماؤں کے سامنے تشدد کرتے رہے۔
اسرائیلی این جی او ‘ھامو کیڈ ‘ نے ایسے بہیمانہ واقعات پر عدالت سے رجوع کیا تو معلوم ہوا کہ 300 واقعات میں بغیر سمن اور وارنٹ کے فلسطینی بچوں اور نوجوانوں کو اسرائیلی فوج یا پولیس نے اٹھایا تھا۔
پولیس حکام کے مطابق انہیں اس امر کا حق ہے کہ جب چاہیں اور سمن کے بغیر بھی ان کو اٹھا لیں۔ این جی او کے مطابق ان فلسطینیوں بچوں کو اس طرح گرفتار کرنا خلاف قانون ہے۔
قانون کے مطابق ان کم سن بچوں نے اگر کوئی جرم کیا ہے تو بھی ان کے والدین سے کہا جائے گا کہ وہ اپنے بچوں کو تفتیش کے لیے ساتھ لے کر آئیں۔ ‘ھامو کیڈ ‘ کے مطابق اس قانون کے حوالے سے اسرائیلی پولیس نے عدالت میں تو یہ بتایا کہ اس قانون کی پابندی کی جاتی ہے۔
مگر جب اعداد و شمار سامنے آئے تو ایسے واقعات چار پانچ سے زیادہ نہ تھے۔ باقی سینکڑوں کی تعداد میں ہونے والے واقعات میں والدین کو اپنے بچوں کو کبھی بھی تفتیش کے لیے لانے کا نہیں کہا گیا تھا۔
کئی زیر حراست لیے گئے بچوں نے بتایا ہے کہ انہیں صرف اس لیے حراست میں لیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ ان سے ہمسایوں کے بارے میں معلومات لی جا سکیں۔15 سالہ یوسف کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ اپنے گھر میں رات کے تین بجے سو رہا تھا۔