Urdu News

قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈووال نے افغانستان پر علاقائی سلامتی کانفرنس میں روسی ہم منصب نکولائی پیٹروشیف کا خیرمقدم کیا

قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈووال نے افغانستان پر علاقائی سلامتی کانفرنس میں روسی ہم منصب نکولائی پیٹروشیف کا خیرمقدم کیا

قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول (NSA Ajit Doval)نے روس سے اپنے ہم منصب نکولائی پیٹروشیف کا خیرمقدم کیا ہے، جس نے افغانستان پر ایک بڑی سیکورٹی کانفرنس کا آغاز کیا ہے، جس میں تمام وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ ساتھ ایران بھی سرگرم  طور پرشریک ہیں۔

دو مہینوں میں یہ دوسرا موقع ہے جب ڈووال افغانستان کی صورت حال پر ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے پیٹروشیف کی میزبانی کر رہے ہیں، جس پر طالبان نے قبضہ کر لیا ہے، جس سے ملک کی اقلیتوں بشمول تاجک، ازبک اور شیعہ ہزارہ کے درمیان بدامنی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اسلامک اسٹیٹ۔خراسان (ISIS-K) نے 15 اگست کو کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد ملک میں خوفناک دہشت گردانہ حملے کیے ہیں۔

بدھ کی کانفرنس سے پہلے، NSA Dovalنے نئی دہلی میں اپنے تاجک اور ازبک ہم منصبوں سے ملاقات کی تھی اور افغانستان کے بارے میں تفصیلی تبادلہ خیال کیا تھا اور سب نے اپنی آرا پیش کی تھی۔

نمایاں طور پر انہوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ طالبان حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرنے سے پہلے افغانستان میں لویہ جرگہ (قبائلی کونسل) اور مذہبی کونسل سے تسلیم کرنا چاہیے۔ایک وثوق ذرائع  نے بتایا کہ دو مرحلوں پر مشتمل عمل کی وضاحت میں، نئی دہلی، تاشقند  نے کہا  کہ "افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ خود افغانستان کے لوگوں کو کرنا چاہیے۔"

انہوں نے اگست کے وسط میں طالبان کے جنگ زدہ ملک پر قبضہ کرنے کے بعد افغانستان سے دہشت گردی کے خطرات میں تیزی سے اضافے کے حوالے سے بھی خدشات کا اظہار کیا۔

جب کہ تین اعلیٰ سیکورٹی مشیروں نے اس خیال کا اشتراک کیا کہ افغانستان میں کسی بھی افغان حکومت کی قانونی حیثیت "اس کی بین الاقوامی شناخت کے معاملے سے پہلے اہم ہے"، ان کی دوسری بڑی تشویش افغانستان میں بڑھتا ہوا انسانی بحران تھا۔

"طالبان کو افغانستان کے عوام بشمول شیعہ ہزارہ، ازبک، تاجک، اور سب سے اہم ملک کی خواتین کا اعتماد ہونا چاہیے،" ان ملاقاتوں کے دوران بنیادی تشویش تھی۔ انہوں نے طالبان کو اہم دعویدار کے طور پر تسلیم کیا لیکن انہیں افغانوں سے تسلیم کرنا چاہیے۔

پیٹروشیف-ڈووال ملاقات 24 اگست کو وزیر اعظم نریندر مودی اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے درمیان ہونے والی اہم بات چیت سے بھی استفادہ کر ر ہے ہیں۔ انہوں نے ایک نیا میکنزم قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا جو افغانستان پر دونوں ممالک کی پوزیشنوں پر توجہ مرکوز اور ہم آہنگی پیدا کرے گا۔ پیٹروشیف کے دورے کے دوران نئے ادارہ جاتی انتظامات کا آغاز متوقع ہے۔

سفارتی ذرائع نے انڈیا نیرٹیو کو بتایا کہ طالبان میں شدت پسند جماعتوں کی سرگرمیاں یقیناً وسطی ایشیا اور دیگر پڑوسی ممالک  کے لیے پریشان کن ہیں۔ دہلی کانفرس میں بات چیت کے ذریعے افغانستان میں امن پیدا کرنا اور دہشت گردوں کو افغانستان سے دور رکھنا ہے۔ اس کانفرنس میں روسی فریق اس بات کا کہنا ہے کہ  ہندوستان، سیکولر وسطی ایشیائی جمہوریہ خصوصاً تاجکستان، کرغزستان کی فوجی لچک کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور افغانستان سے بنیاد پرستی کے ممکنہ حملے کا مقابلہ  بھی کرتا ہے۔اس لیے ہندوستان کی اس اہم پیش رفت کی تعریف کی جانی چاہیے تاکہ افغانستان میں امن و امان قائم ہوسکے اور پاکستان، چین  اور دیگر دہشت گرد جماعتیں  انسانیت خلاف کام سے باز آسکے۔

مزید پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں

https://urdu.indianarrative.com/world-news/will-the-delhi-conference-be-helpful-in-the-recent-history-of-afghanistan-what-is-the-cause-of-unrest-between-pakistan-and-china-26612.html

Recommended