Urdu News

نیپال: سپریم کورٹ کے شوکاز نوٹس نے کیوں اڑا رکھی ہے حکومت کی نیند؟

نیپال سپریم کورٹ کا اندرونی نظارہ

پوچھا آپ کی پارلیمنٹ کی رکنیت کیوں نہ منسوخ کر دی جائے؟ چھ ماہ میں 600 میٹر چلا عدالتی حکم

کاٹھمنڈو، 02 جولائی (انڈیا نیرٹیو)

نیپال میں سپریم کورٹ کی آئینی بنچ کے شو کاز نوٹس نے سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔ بنچ نے سینئر ایڈوکیٹ بال کرشنا نیوپانے کی مفاد عامہ کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے ایک اہم حکم دیا ہے۔ جس کی وجہ سے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں (ایوان نمائندگان) میں 110 متناسب ارکان پارلیمنٹ کی رکنیت پر خطرے کی تلوار لٹک رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے ان ارکان پارلیمنٹ کو ایک ہفتے کے اندر تحریری جواب دینے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ آپ کی رکنیت کیوں نہیں منسوخ کردی جائے؟

نیوپانے نے درخواست میں کہا ہے کہ نیپال کے ایوان نمائندگان میں آئینی دفعات کے مطابق تناسب کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کی سفارش پر 110 افراد کو رکن پارلیمنٹ بنایا گیا ہے۔ ان کا انتخاب آئینی دفعات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ اس لیے ان کی پارلیمنٹ کی رکنیت منسوخ کی جائے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ نیپال کے آئین میں ایوان نمائندگان میں 275 ارکان پارلیمنٹ کی گنجائش موجود ہے۔ ان میں سے 165 ایم پی براہ راست انتخاب (انتخابات) کے تحت منتخب ہوتے ہیں۔ 110 ممبران پارلیمنٹ کا انتخاب سیاسی جماعتوں کے تناسب ووٹ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔

سینئر ایڈوکیٹ بال کرشن نیوپانے نے عرضی میں واضح کیا ہے کہ متناسب ممبران پارلیمنٹ بنانے کا حق صرف ان سیاسی جماعتوں کو دیا جاتا ہے جو کل ووٹوں کا کم از کم تین فیصد حاصل کرتی ہیں۔ نیپال کے آئین کے آرٹیکل 42(1) کے مطابق معاشی، سماجی اور تعلیمی لحاظ سے پسماندہ قبائلی، قبائلی، دلت، مدھیشی، تھارو، اقلیتی، کھسریا اور مسلم کمیونٹیز کی نمائندگی کے لیے متناسب ممبران پارلیمنٹ بنانے کا انتظام کیا گیا ہے۔

درخواست میں تمام سیاسی جماعتوں پر الزام لگایا گیا ہے کہ متناسب ارکان پارلیمنٹ کا انتخاب ذات پات کی بنیاد پر کیا گیا ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی معاشی، سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ فرد نہیں ہے۔ متناسب بنیادوں پر منتخب ہونے والے اراکین پارلیمنٹ معاشی، سماجی اور تعلیمی لحاظ سے خوشحال ہیں جو کہ آئین کی بنیادی روح کے خلاف ہے۔

چیف جسٹس ہری کرشنا کارکی، جسٹس وشومبھر پرساد شریسٹھا، جسٹس ایشور پرساد کھٹیوڑا، جسٹس ڈاکٹر آنند موہن بھٹارائی اور جسٹس انیل کمار سنہا کی آئینی بنچ نے تمام 110 ارکان پارلیمنٹ کو تحریری وضاحت دینے کا حکم دیا۔ حکم نامے کے مطابق خط موصول ہونے کے سات دن کے اندر آپ کو اپنا تحریری رخ عدالت میں پیش کرنا ہوگا۔ اس معاملے میں اراکین پارلیمنٹ کے علاوہ نیپال کی حکومت، وزیر اعظم کے دفتر اور الیکشن کمیشن کو بھی وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا گیا ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آئینی بنچ نے یہ حکم اس سال 18 جنوری کو ہی دیا تھا، لیکن اس حکم کو پارلیمنٹ سیکرٹریٹ کے ذریعے اراکین پارلیمنٹ تک پہنچنے میں چھ ماہ سے زیادہ کا وقت لگا ہے۔ زیادہ تر ممبران پارلیمنٹ کو عدالت کا یہ حکم 31 جولائی کو ملا اور بہت سے ممبران پارلیمنٹ کو یہ حکم یکم اگست کی شام کو ملا۔

درخواست گزار بال کرشنا نیوپانے کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ سیکرٹریٹ کے درمیان فاصلہ صرف 600 میٹر بھی نہیں ہے، لیکن عدالت کے حکم تک پہنچنے میں چھ ماہ کا عرصہ لگا ہے۔ یہ اپنے آپ میں مضحکہ خیز ہے۔ نوٹس ملنے کے بعد ملک میں سیاسی ہلچل مچ گئی ہے۔ ارکان پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتیں اس معاملے پر قانونی مشورہ لینے میں مصروف ہیں۔

Recommended