Urdu News

سری لنکا میں برقعہ پر پابندی اور مدرسوں کوبند کرنے پر پاکستان ناراض

سری لنکا میں برقعہ پر پابندی اور مدرسوں کوبند کرنے پر پاکستان ناراض


سری لنکا میں برقعہ پر پابندی اور مدرسوں کوبند کرنے پر پاکستان ناراض

کولمبو ، 16 مارچ (انڈیا نیرٹیو)

سری لنکا میں برقعوں پر پابندی اور ایک ہزار مدرسے بند کرنے کی سفارش پر پاکستان ناراض ہے۔ پاکستان نے اس پر سخت رد عمل ظاہر کیا ہے اور اسے تفرقہ انگیزی قرار دیا ہے۔ سری لنکا میں پاکستان کے ہائی کمشنر نے برقعہ پر پابندی کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سلامتی کے نام پر اس طرح کے اقدام سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوں گے۔

پاکستان کا یہ بیان سری لنکا کی کابینہ کے وزیر سیرت ویرسیکھرا کے ذریعہ برقعے پر پابندی عائد کرنے کے فیصلے کے بعد سامنے آیا ہے۔سری لنکا میں ، نہ صرف برقع پر بلکہ چہرے کو ڈھانپنے والے تمام کپڑے پر بھی پابندی کی سفارش کی گئی ہے۔ ویرسیکھرا نے یہ سفارش جمعہ کے روز کی۔ ہفتے کے روز ، ویر سیکھرا نے دعویٰ کیا کہ یہ سفارش قومی سلامتی کے پیش نظر کی گئی ہے۔

سری لنکا میں برقعے پر پابندی اور دینی مدارس بند کرنے کا فیصلہ

اصل مسئلہ کیا ہے؟

سری لنکا کے وزیر برائے پبلک سیکورٹی کا کہنا ہے کہ حکومت برقعہ پہننے پر پابندی لگانے کے علاوہ ایک ہزار سے زائد دینی مدارس بھی بند کر دے گی۔ہفتے کو صحافیوں سے گفتگو میں پبلک سیکورٹی کی وزیر سارتھ ویراسکیرا کا کہنا تھا کہ انہوں نے سیکورٹی خدشات کے پیشِ نظر مسلمان خواتین کے مکمل چہرہ ڈھانپنے پر پابندی عائد کرنے سے متعلق بل پر جمعے کو دستخط کیے ہیں۔ اس بل کی منظوری کابینہ سے لی جائے گی۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق ویراسکیرا کا کہنا تھا کہ اس خطے میں ابتدا میں مسلمان خواتین اور لڑکیوں نے کبھی برقعہ نہیں پہنا تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ برقعہ پہننا انتہا پسندی کی نشانی ہے۔ ان کے بقول وہ اس پر ضرور پابندی لگائیں گے۔بدھ مت اکثریت والے ملک سری لنکا میں برقعہ پہننے پر عارضی پابندی 2019 میں گرجہ گھروں اور ہوٹلوں پر ہونے والے دھماکوں کے بعد لگائی گئی تھی جس کی ذمہ داری عسکریت پسندوں نے قبول کی تھی۔خیال رہے کہ ان دھماکوں میں 250 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

ویراسکیرا کا مزید کہنا تھا کہ حکومت ایک ہزار سے زائد دینی مدارس کو بند کرے گی۔ جو کہ ان کے بقول قومی تعلیمی پالیسی کے مطابق نہیں ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہر کوئی تعلیمی ادارہ نہیں کھول سکتا اور جو چاہے وہ بچوں کو نہیں سکھا سکتا۔سری لنکا کے شمالی علاقوں میں دہائیوں پرانی شورش کو ختم کرنے سے شہرت پانے والے گوٹا بائی راجہ پاکسا انتہاپسندی کے خلاف کارروائی کرنے کے وعدے کی وجہ سے ہی 2019 میں انتخابات میں صدر منتخب ہوئے تھے۔

راجہ پاکسا پر جنگ کے دوران انسانی حقوق کی پامالی کے الزامات بھی لگائے جاتے رہے ہیں جن کی انہوں نے ہمیشہ تردید کی ہے۔برقعے پر پابندی اور دینی مدارس بند کیے جانے سے قبل حکومت کی طرف سے کرونا وبا سے ہلاک ہونے والے مسلمانوں کی لاشوں کو مسلمانوں کی مرضی کے برخلاف جلانے کا حکم دیا گیا تھا جو کہ اپنے مردوں کو دفناتے ہیں۔تاہم یہ پابندی امریکہ اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے گروپس کی تنقید کے بعد اٹھا لی گئی تھی۔

Recommended