اسلام آباد، 15؍اپریل
پاکستانی فوج نے عمران خان کے غےر ملکی سازش کے الزام کو ایک بار پھر مسترد کردیا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی)آئی ایس پی آر بابر افتخار نے کہا کہ اگرچہ ملاقات کا مواد خفیہ تھا تاہم ملاقات کے بعد جاری ہونے والے بیان میں کہیں بھی 'سازش' کی اصطلاح کا ذکر نہیں کیا گیا۔
عمران خان کی زیر قیادت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی( کی حکومت کے خاتمے کے چند دن بعد، انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر)، پاکستانی فوج کے میڈیا ونگ نے عمران خان کی حکومت گرانے کے لیے "غیر ملکی سازش" کے الزامات کو واضح طور پر مسترد کر دیا۔ ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی)آئی ایس پی آر بابر افتخار نے کہا کہ پاکستان کی قومی سلامتی کونسل (این ایس سی) کے اجلاس کا حوالہ دیتے ہوئے، جس میں امریکہ میں پاکستانی سفارت خانے سے موصول ہونے والے مبینہ "دھمکی والے خط" پر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے چند روز قبل تبادلہ خیال کیا گیا تھا کہ اگرچہ میٹنگ کے مندرجات خفیہ تھے تاہم ملاقات کے بعد جو بیان جاری کیا گیا، اس میں کہیں بھی "سازش" کی اصطلاح کا ذکر نہیں کیا گیا۔ جیو نیوز پر نشر ہونے والی پریس کانفرنس میں بابر نے کہا کہ "جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ آپ کے سامنے ہیں… جیسا کہ میں نے کہا… استعمال کیے گئے الفاظ واضح ہیں، کیا اس میں سازش جیسا کوئی لفظ استعمال کیا گیا ہے؟ مجھے نہیں لگتا"۔ انہوں نے مزید کہا کہ انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) نے مبینہ خط کے آنے پر اس کی تحقیقات کی تھی اور اس طرح اس نے این ایس سی کو اپنی معلومات فراہم کی تھیں۔ افتخار نے کہا کہ "اگر کوئی بیرونی طاقت پاکستان کے خلاف سازش کرنے کی کوشش کرتی ہے تو ہم اسے کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔"
انہوں نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں پاکستانی فوج کی شمولیت کو بھی مسترد کر دیا جبکہ عوام اور سیاسی جماعتوں سے بھی درخواست کی کہ "فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹیں۔" عمران خان کے ان الزامات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہ فوج نے انہیں تحریک عدم اعتماد سے قبل تین آپشنز دیے تھے، ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ نہیں بلکہ سابق وزیر اعظم نے مداخلت کے لیے آرمی چیف سے رابطہ کیا تھا اور پھر آپشنز پر بات ہوئی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ 'اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے آپشنز نہیں دیے گئے، وزیراعظم آفس نے آرمی چیف سے رابطہ کیا، جب (سیاسی جماعتوں کے درمیان)یہ تعطل پیدا ہوا تو پی ایم او نے فوج کو مداخلت کرنے کو کہا تھا۔ ڈی جی۔ آئی ایس پی آر نے وضاحت کی کہیہ بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اس وقت آپس میں بات کرنے کو تیار نہیں تھیں… اس لیے آرمی چیف اور ڈی جی-آئی ایس آئی پی ایم او گئے… یہیں ان تینوں منظرناموں پر بات ہوئی… ایک منظر نامہ یہ تھا کہ تحریک عدم اعتماد جوں کی توں چلتی ہے، دوسرا یہ کہ وزیر اعظم مستعفی ہو جائیں اور تیسرا یہ تھا کہ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد واپس لے اور وزیر اعظم قومی اسمبلی کو تحلیل کر کے نئے انتخابات کرائیں۔