اسلام آباد، یکم جون
پاکستان کے نئے آرمی چیف کی تقرری کی دوڑ کے ساتھ، اس بات کا قوی امکان ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف، جنہیں آئینی طور پر آرمی چیف کے انتخاب کی اجازت ہے، کوئی کردار ادا نہیں کریں گے اور فوج خود ہی فیصلہ کرے گا۔ پاکستانی فوج نہ صرف یہ فیصلہ کرتی ہے کہ نیا آرمی چیف کون ہوگا بلکہ حکومت سے متعلق تمام سرگرمیوں کا بھی فیصلہ کرتی ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کی برطرفی پر فوج غیرجانبدار رہی لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ وہ یو ٹرن لے کر اپنے پرانے کھیل کی طرف لوٹ رہی ہے۔
پاکستان کی معیشت جو کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے زبوں حالی کا شکار ہے وہ بھی ایک ایسا معاملہ ہے جس پر فوج کو تشویش ہے۔ فوج کے پریشان ہونے کی وجہ ہے کیونکہ پیسے کے بغیر ان کی اپنی بقا داؤ پر لگ گئی ہے۔ دریں اثنا، یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف پاکستانی فوج کی ہدایت پر عمل کریں گے۔
تاہم پاکستانی معیشت کی حالت تشویشناک ہے۔ اسلام خبر کی رپورٹ کے مطابق، اس بنیاد کے بغیر، کسی بھی قسم کی سیاست فوج کو پاکستان میں سپریم پاور کے طور پر اپنی پوزیشن پر قائم رہنے میں مدد نہیں دے گی۔ پاکستانی فوج کا اثر و رسوخ اس وقت واضح ہوا جب انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر)کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے ایک میڈیا بریفنگ (14 اپریل 2022 )سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اور لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم، ڈی جی آئی ایس آئی کو وزیر اعظم کے دفتر نے اس وقت رابطہ کیا جب ' ڈیڈ لاک' جاری تھا۔
پاکستان کی قومی سیاست میں حالیہ تبدیلی کو بڑے پیمانے پر رپورٹ کیا گیا تھا کہ عمران خان اور ملک کی طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں اہم شخصیات یعنی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، اور انٹیلی جنس سروسز (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے درمیان پاور پلے کا آغاز ہوا ۔ حمید، جن سے بڑے پیمانے پر باجوہ کی جگہ لینے کی توقع کی جا رہی تھی، اکتوبر میں عمران خان کی خواہش کے خلاف لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم نے ان کی جگہ لی۔
فوج نے 6 اکتوبر 2021 کو اعلان کیا تھا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو پشاور کور کمانڈر مقرر کیا گیا ہے، جب کہ ان کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل انجم کو تعینات کیا گیا ہے۔ لیکن ملک کے وزیر اعظم کے دفتر (پی ایم او) نے تین ہفتے بعد تک لیفٹیننٹ جنرل انجم کی تقرری کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا تھا، جس کی وجہ سے سول ملٹری تعلقات میں تناؤ کی قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں۔