کوئی بھی سیاسی نظام خواہ صدراتی ہو یا پارلیمانی جمہوریت، آئین کی بالادستی اور وفاداری کے بغیر نہیں چل سکتا ہے
رخسار بٹ، کراچی
گلوبل ٹائمز میڈیا یورپ کے مطابق کامیاب جمہوری ریاست کی بقا آئین کی بالادستی پر منحصر ہوتی ہے۔ کوئی بھی سیاسی نظام خواہ صدارتی ہو یا پارلیمانی جمہوریت، آئین کی بالادستی اور وفاداری کے بغیر نہیں چل سکتا ہے۔جس قوم نے بھی دنیا یا شریعت سے بے وفائی کی ہے اس قوم کو کبھی عزت نہیں ملی۔ یقینا سیاسی تمدن یا سیاسی ثقافت کا تقاضا یہ ہے کہ آئین سے وفاداری کی جائے۔
ان خیالات کا اظہارسابق ڈین سوشل سائنسز جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد قادری،جامعہ کراچی کے شعبہ سیاسیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد علی اور وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہ بین القوامی تعلقات کی اسسٹنٹ پروفیسرڈاکٹر رضوانہ جبیں نے جسارت کے اس سوال کے جواب میںکیا کہ ’کیا سیاسی جماعتوں کے سربراہوں سے وفاداری آئین سے مقدم ہے؟‘‘پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد قادری کا کہنا تھا کہ اس سوال کے جواب میں ایک سوال پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ اور اللہ کے رسول سے ہم نے جو وعدہ کیا ہے کہ شریعت کی پاسداری کریں گے۔ کیا اس سے سیاسی جماعتوں کے سربراہ، آئین مقدم ہے۔ ہم نیزندگی میں جو بڑی چیزیں سیکھیں ہے کہ وہ یہ ہے کہ جس قوم نے بھی دین یا شریعت سے بے وفائی کی ہے اس قوم کو کبھی عزت نہیں ملی۔ یقینا سیاسی تمدن یا سیاسی ثقافت کا تقاضا یہ ہے کہ آئین سے وفاداری کی جائے۔ اور آئین ہی مملکت کو چلانے کا سلسلہ ہے۔
لیکن پاکستان کا جو دانشور طبقہ ہے ان میں اصل دستور کو کتنے لوگوں نے پڑھا۔ دستور کو 99 فیصد لوگوں نے پڑھا ہی نہیں ہے۔ انہوں نے پڑھا ہوگا وہ بھی ان لوگوں نے جو مقدمات کرتے ہوں گے جس دستور کا علم ہی نہ ہو تو اس سے وفاداری کیا ہوگی۔ دستور اس وقت یاد آتا ہے جب ملک میں کوئی آئینی بحران ہوتا ہے۔ اپنے مقاصد کے لیے ہر کسی کو دستور، اسلام سب یاد آجاتے ہیں۔ دستور اگر مقدم ہوتا تو سیاسی جماعتیں اور ان کے کارکنان اس بات کا خیال ضرور کریں کہ دستور کے بنیادی نکتہ پر توجہ دیں، کارکنان کی تربیت کریں اور ان کو آئین پڑھائیں، لوگوں کو یہ باور کرانا چاہیے کہ سب سے پہلے پاکستان اور دستور آتا ہے بعد میں ہم آتے ہیں۔ دستور کی بے حرمتی کرے یا اللہ اور اس کے رسول کی بے حرمتی کریںتوہم مصلحتاً خاموش ہوجاتے ہیں یا اگر ہمارے سیاسی قائد کے حوالے سے کوئی غلط بات نہیں سنتے اور اس کو جان سے مارنے پر تُل جاتے ہیں۔
یہ انتہا پسندانہ سزااور تشدد کا رویہ دین اور دستور سے دوری کی وجہ ہے۔کراچی یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات ڈاکٹر محمد علی کا کہنا تھا کہ کسی بھی کامیاب جمہوری ریاست کی بقا آئین کی بالادستی پر منحصر ہوتی ہے۔ کوئی بھی سیاسی نظام خواہ صدارتی ہو یا پارلیمانی جمہوریت، آئین کی بالادستی اور وفاداری کے بغیر نہیں چل سکتا ہے۔ اس کی واضح مثال امریکا اور برطانیہ ہے جمہوریت میں آئین اور ریاست لازم ملزوم ہے تمام حکومتی ادارے، عوام، سیاسی جماعتیں اور ان کے سربراہ مکمل طور پر آئین کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں اور آئین ہی مقدم ہوتا ہے۔ تاہم بدقسمتی سے متعدد ترقی پذیر جمہوری ریاستوں بالخصوص پاکستان میں اس اصول سے جزوی طور پر انحراف کیا گیا ہے۔ ماضی میں اس کی کافی مثالیں موجود ہیں۔ پاکستان میں حالیہ واقعات اس کی واضح مثال ہے جب پارلیمان جمہوریت میں آئین کے بجائے سیاسی سربراہ سے وفاداری کو مقدم رکھتے ہوئے کچھ فیصلے غیر آئینی بھی کیے گئے جو کہ بعد میں عدلیہ نے کالعدم قرار دیے۔ ہمیں اس اصول کو سمجھنا ہوگا کہ سیاسی جماعتیں اور سیاسی حکومتیں عارضی ہوتی ہیں۔ آتی اور جاتی رہتی ہیں مگر ریاست اور آئین مستقل ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتوں اور ان کے سربراہ سے محبت اور عقیدت اپنی جگہ مگر آئین کو ہمیشہ مقدم رکھنا چاہیے اور یہی کامیاب پارلیمانی جمہوریت کی بنیاد ہے۔
اس سلسلے میں ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈر کو مل جل کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہ بین القوامی تعلقات کی اسسٹنٹ پروفیسرڈاکٹر رضوانہ جبیںکا کہنا تھا کہ سیاسی جماعت کسی بھی خطے میں ریاست کی حکومت میں سیاسی طاقت کے حصول کے لیے تشکیل دی جاتی ہے۔سیاسی جماعتیں انتخابی مہم اور احتجاجی مظاہروں کی مدد سے اپنی موجودگی اور سیاسی طاقت کا اظہار کرتیں ہیں۔ سیاسی جماعتوں کا منشور مخصوص سیاسی ذہنیت اور مخصوص اہداف کے بارے میں عوام کو آگاہ کرتا ہے۔ جبکہ آئین سپریم قانون ہوتا ہے ریاست کو چلانے کا سارا عمل آئین کے تحت ہوتا ہے۔ آئین میں پاکستان کو جمہوری ریاست قرار دیا ہے۔
جمہوری ریاست میں کسی مخصوص جماعت،فرقے یا فرد کے بجائے اقتدار بحیثیت مجموعی عوام کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل میں واضح الفاظ میں اس بات کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ حکمرانی کے اختیار کی یہ مقدس امانت عوام اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے بروئے کار لائیں گے۔ ریاست کے اندر کوئی بھی چیز آئین سے بالاتر نہیں ہوتی ہے۔ آئین سپریم قانون ہوتا ہے۔ آئین اور ریاست سے بڑھ کر سیاسی جماعتوں کا سربراہ نہیں ہو سکتا۔ سیاسی جماعتیں اس وقت ہی چل سکتیں ہیں جب ریاست کے اندر کوئی آئین موجود ہو۔ سیاسی جماعتوں کے لیے الیکشن کا عمل بھی آئین کے زریعے ہی واضح ہوتا ہے، سیاسی جماعتوں کو اس آئینی عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ لہذا میں یہ سمجھتی ہوں کہ سیاسی جماعتوں کے سربراہوں س وفاداری صرف سیاسی وفاداری ہو سکتی ہے وہ کسی طور بھی آئین سے مقدم نہیں ہے۔