اسلام آباد،19؍جون
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے جبری گمشدگیوں میں ریاست ملوث ہونے پر تبصرہ دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم بے بس نہیں تو آئین انہیں اس کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس من اللہ جمعہ کو صحافی مدثر نارو اور دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کی درخواستوں کی سماعت کر رہے تھے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے تبصرہ دیا کہ پولیس ماورائے عدالت قتل میں ملوث ہے جب کہ ایجنسیوں پر لوگوں کو بھونکنے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ ہر روز لوگوں کو لاپتہ کیا جا رہا ہے لیکن کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ اگر وزیراعظم بے بس نہیں تو آئین انہیں ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ جج نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے لاپتہ افراد کے کیس کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت حکومتی حکم پر عمل کرنے میں ناکام رہی ہے، چیف جسٹس من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ حکومت کو 25 مئی کے عدالتی حکم پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔ ادھر حکومت نے لاپتہ افراد سے متعلق کابینہ کمیٹی کی تشکیل کا نوٹیفکیشن عدالت میں جمع کرا دیا۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان نے عدالت کو بتایا کہ لاپتہ افراد کے معاملے پر وفاقی کابینہ نے وزرا پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی ہے۔تاہم مایوس چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے اپنے حکم میں حکومت کو گمشدہ افراد کی بازیابی کی ہدایت کی ہے۔ اس پر اے جی پی نے دہرایا کہ حکومت نے ایک کمیٹی بنائی ہے اور تحقیقاتی ادارے بھی لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے پوری کوشش کر رہے ہیں۔
جج نے اے جی پی کو یاد دلایا کہ عدالت نے سابق صدر جنرل ر پرویز مشرف اور ان کے بعد آنے والے تمام وزرائے اعظم کو نوٹس جاری کرنے کی ہدایت کی تھی۔ جج نے وکیل سے استفسار کیا کہ یہ نوٹس اور بیان حلفی کہاں ہیں؟ جسٹس من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ بہت اہم مسئلہ ہے لیکن اس حوالے سے حکومتی رویہ افسوسناک ہے۔انہوں نے اے جی پی سے پوچھا کہ کیا نئی تشکیل شدہ کمیٹی نے کبھی اپنی میٹنگیں منعقد کی ہیں؟ جج نے ان سے پوچھا کہ وزرائے داخلہ کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ کیا اچھا لگے گا اگر عدالت ملک کے چیف ایگزیکٹو کو طلب کرے‘۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تمام حکومتیں اپنے حلف اور آئین کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔