پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے تشدد اور انتشار پھیلانے کی سازش کے ساتھ ساتھ اپوزیشن رہنماؤں بشمول مولانا فضل الرحمان، آصف زرداری، بلاول بھٹو، شہباز شریف اور کچھ مخالفین کو گرفتار کرنے کے منصوبے کے پیش نظر کل یعنی اتوار کو ہونے والے عدم اعتماد کے ووٹ میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے پاک فوج بھی مبینہ طور پر متحرک ہوگئی ہے۔ اس کی 111 بریگیڈ ہائی الرٹ پر ہے اور اہم عمارتوں اور تنصیبات کا کنٹرول فوج نے سنبھال لیا ہے۔
ریڈ زون کی طرف جانے والے تمام راستوں کو مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ہے۔ رپورٹس بالواسطہ طور پر ظاہر کرتی ہیں کہ یہ دراصل جی ایچ کیو اور پشاور کے کور کمانڈر فیض حمید کے درمیان جنگ ہے۔ عمران حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نہیں۔ غور طلب ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی 29 مارچ کو میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ووٹنگ کے دن پی ٹی آئی کے 100,000 حامی پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر جمع ہوں گے، اپوزیشن لیڈر نے اپنے خط میں کہا کہ ایسا کوئی بھی اجتماع صریحاً خلاف ورزی ہوگا۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے 18 مارچ کے حکم کے مطابق سی آر پی سی کی دفعہ 144 کے تحت ریڈ زون کے اندر پانچ یا اس سے زیادہ افراد کے جمع ہونے پر پابندی ہے۔ دوسر ی طرف اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے بھی انتظامیہ سے پارٹی وابستگی سے قطع نظر ہر رکن پارلیمنٹ کی حفاظت کو یقینی بن بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔