Urdu News

پاکستانی فوج کے سربراہ باجوہ نےہندوستان کے ساتھ امن بات چیت کی پیش کش کی

پاکستانی فوج کے سربراہ قمرجاوید باجوہ

اسلام آباد ، 19 مارچ (انڈیا نیرٹیو)

حکومت پاکستان کے بعد اب پاک آرمی چیف نے ہمسایہ ملک ہندوستان کے ساتھ بھی امن کی پہل کی ہے۔ بھاری مالی بحران کا شکار پاکستان کے ہندوستان مخالف لہجے میں نرمی آئی ہے۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ہندوستان اور پاکستان سے ماضی کو بھلا کر آگے بڑھنے کو کہا ہے۔ باجوہ کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے مابین امن سے خوش حالی آئے گی۔ اس کی مدد سے ہندوستان کا وسطی ایشیاتک پہنچنا آسان ہوجائے گا۔

باجوہ نے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کے مابین امن اور تعلقات کو مشرقی اور مغربی ایشیاکے مابین رابطے کو یقینی بنا کر جنوبی اور وسطی ایشیا کی صلاحیت کو بروئے کار کے لیے ضروری ہے۔ اس سے دونوں ممالک کو جنوبی اور وسطی ایشیاء میں اپنی صلاحیت بڑھانے میں مدد ملے گی۔ اس کے باوجود ، باجوہ نے کشمیر کا راگ الاپا اورتعلقات کو معمول پر لانے کے لیے پہل کرنے کی ذمہ داری ہندوستان پر عائد کردی۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کو خاص طور پر کشمیر میں ایک سازگار ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ باجوہ کے بیان سے محض ایک روز قبل ، پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ اگرہندوستان اور پاکستان کے مابین امن قائم ہوجاتا ہے تو، اس سے نئی دہلی کو وسائل سے مالامال وسطی ایشیاتک پہنچنے میں مدد ملے گی۔ اسی دوران ، ہندوستان نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا چاہتا ہے لیکن اس کے لئے اسلام آباد کو پہلے دہشت گردی اور دشمنی کے ماحول کو ختم کرنا ہوگا۔

پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باوجوہ کا کہنا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے مستحکم تعلقات وہ چابی ہے جس سے مشرقی اور مغربی ایشیا کے مابین رابطے کو یقینی بناتے ہوئے جنوبی اور وسطی ایشیاکی صلاحیتوں کو ان لاک کیا جا سکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ تاہم یہ موقع دو ایٹمی ہمسایہ ممالک کے مابین تنازعات کی وجہ سے یرغمال بنا ہوا ہے۔ تنازعہ کشمیر واضح طور پر اس مسئلے کا مرکز ہے۔

ملک کے دارالحکومت اسلام آباد میں پہلے اسلام آباد سیکورٹی مذاکرات کی تقریب کو خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ برصغیر میں امن کا خواب ادھورا ہے جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوجاتا۔ ’اب وقت آگیا ہے کہ ماضی کو دفن کیا جائے اور آگے بڑھا جائے۔ انھوں نے واضح کیا کہ بامعنی مذاکرات سے قبل ہمارے پڑوسی ملک کو ماحول کو سازگار بنانا ہوگا خاص طور پر انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں۔

پاکستان کی جانب سے حال ہی میں سرحد پر فائربندی کا معاہدہ کیا گیا جس کے بعد آرمی چیف جنرل جاوید باجوہ کی انڈیا کو مذاکرات کی یہ پیش کش سامنے آئی ہے۔پاکستان کے سابق وفاقی وزیر معین الدین حیدر کا کہنا ہے کہ آرمی چیف سے قبل وزیر اعظم عمران بھی کہہ چکے ہیں کہ جاری کشیدگی کو کم کیا جائے، یہ کشیدگی کم ہو تاکہ کچھ سکون کے لمحے میسر ہوں۔

انھں نے کہا کہ بھارت بڑا ملک اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس پیش کش کا مثبت جواب دے، کشمیر اہم مسئلہ ہے جس کی وجہ سےگڑ بڑ ہوتی ہے اس سے قبل بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت سے اس پر بات ہوئی، کانگریس کی منموہن سنگھ حکومت نے بھی اس سلسلے کو جاری رکھا، یہ ایک سچی پیش کش ہے کہ پاکستان جنگ کے حق میں نہیں وہ مذاکرات چاہتا ہے۔

’بعض سیاستدانوں کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ فوج مذاکرات کے حق میں نہیں ہے۔ فوج چاہتی ہے کہ دو طرفہ تجارت ہو، بارڈر کھلیں، لوگوں کا لوگوں سے رابطہ ہو، لیکن اصل مسئلہ کشمیر کو نہ بھولیں۔‘’جو سمجھوتہ ایکسپریس ہے، دوستی بس سروس ہے، وہ تو بحال ہو، دوطرف تجارت شروع ہو۔ کہیں سے تو ابتدا کی جائے پھر چاہے سیکرٹری سطح پر مذاکرات ہوں، وزارتی یا سربراہی سطح پر۔‘

سینئر صحافی اور تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا ہے کہ آرمی چیف نے مثبت رویے کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ معاشی ترقی اہم، اس خطے میں امن ہونا چاہیے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک سمت متعین کی جارہی ہے، بجائے کشیدگی بڑھانے کہ اس کو کم کیا جائے اور خطے میں معاشی ترقی ہو یہ ایک مثبت رویہ ہے۔’اس سے پہلے ہم نے دیکھا کہ فائر بندی کی گئی اس سے امید ہوئی کہ خطے میں کشیدگی کم ہو رہی ہے، اس سے قبل صورت حال مختلف تھی، سوچ میں تبدیلی آئی ہے آرمی چیف نے اس کا ہی اظہار کیا ہے۔‘

سیاسی اور سماجی تحقیقات کے ادارے پلڈیٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ آرمی چیف کی تقریر کا ’ٹارگٹ آڈینس‘ انڈیا تھا، اس سے پہلے بھی وہ اس نوعیت کا بیان دے چکے ہیں کہ امن کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں جس کے بعد دونوں ممالک میں سیز فائر معاہدہ ہوئے اس میں یقیناً کچھ دوست ممالک شامل ہوں گے۔’یہ سیز فائر کا جو ماحول بنا ہوا وہ اس کا فائدہ لیتے ہوئے مذاکرات چاہتے ہیں، حکومت اور ملٹری چاہتی ہے جہاں سے یہ سلسلہ شروع ہوا تھا وہاں سے شروع کیا جائے، اسی لیے شاید وہ کارگل کے حوالے سے کہہ رہے ہیں کہ ہم ماضی کو بھول کر آگے بڑھیں۔‘

Recommended