مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں دنیائے اسلام کی قدیم ترین علمی درس گاہ جامعۃ الازھر کے امام اعظم شیخ محمد احمد طیب کے مطابق ماہ صیام کے دوران غیر مسلموں پر کھانے کی پابندیاں عائد کرنا اسلام سے مطابقت نہیں رکھتا۔ مصری امام اعظم کا یہ بیان ملک کے آن لائن اخبار 'مصری اسٹریٹس‘ کی اس خبر کے بعد سامنے آیا ہے، جس کے مطابق قاہرہ کے ایک ریستوران نے شام کی افطاری سے قبل دو مسیحی خواتین کو کھانا پیش کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ایسا رویہ نہ صرف مصر بلکہ دنیا کے کئی دیگر مسلم ممالک میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ رمضان کے دوران کھانے پینے کی زیادہ تر دکانیں بند کر دی جاتی ہیں اور کھانا طلب کرنے پر بھی بعض اوقات انکار کر دیا جاتا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ سبھی کا روزہ ہو، یا سبھی مسلمان ہی ہوں، لہذا ایک مخصوص طقبے کے لیے کھانے کی دکانیں اور ریستوران کھلے رہنے چاہئیں۔
مسلمان مسافر، بیمار، بوڑھے افراد یا پھر خواتین کو اپنے مخصوص ایام کے دوران روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ ان حالات میں ایسے مسلم افراد کو بھی کھانے کے حوالے سے مشکلات درپیش رہتے ہیں۔شیخ محمد احمد طیب نے مسیحی خواتین کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کو ''مضحکہ خیز“ قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ روزہ دار مسلمانوں کو دن کے وقت غیر مسلموں کے کھانے پینے سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کو اپنے آپ سے یہ سوال کرنا ہو گا کہ کیا وہ ایسی ہی پابندیاں ان بچوں پر بھی عائد کریں گے، جن کی عمر کم ہے اور ابھی ان پر روزہ فرض نہیں ہے؟قبطی آرتھوڈوکس پوپ تواضروس الثانی نے بھی گزشتہ جمعرات کے اس واقعے پر تبصرہ کیا تھا۔ انہوں نے فیس بک پر شائع ہونے والے ایک بیان میں رمضان المبارک کے دوران مصر میں قبطی آرتھوڈوکس مسیحیوں پر کئی حملوں کی روشنی میں بقائے باہمی کو مضبوط بنانے پر زور دیا۔مصر میں سب سے بڑی مسیحی برادری آرتھوڈوکس قبطی ہیں۔ وہ اپنی شروعات کا سلسلہ مارک المبشر سے جوڑتے ہیں۔ مصر کے تقریباً 100 ملین نفوس میں قدیم مشرقی کلیسیا کے ان ارکان کی معلومہ تعداد آٹھ سے بارہ ملین کے درمیان ہے۔ رومن کیتھولک چرچ کے مصر میں تقریباً 20 ہزار پیروکار ہیں۔