روس کے امریکا کے لیے سفیر کا کہنا ہے کہ واشنگٹن نے 24 روسی سفارت کاروں کو ویزے کی معیاد ختم ہونے کے بعد تین ستمبر تک ملک چھوڑنے کا کہا ہے۔ اس بیان سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔نیشنل انٹرسٹ میگزین کو ایک انٹرویو میں سفیر اناتولی آنتونوف نے یہ تو نہیں بتایا کہ امریکا کے اس اقدام کی وجہ کوئی مخصوص تنازع ہے تاہم انہوں نے کہا کہ تقریباً تمام (سفارت کار) کسی متبادل کے بغیر ہی ملک چھوڑ رہے ہیں کیونکہ واشنگٹن نے اچانک ہی ویزے کے اجرا کے عمل کو سخت بنا دیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے پیر کو کہا کہ ’واشنگٹن روسی سفارت کاروں کے ویزوں کے معاملے کو ماسکو کے خلاف جوابی کارروائی کے طور پر استعمال نہیں کر رہا۔ روسی سفیر کا بیان درست نہیں ہے۔‘نیڈ پرائس نے کہا کہ ’اس میں کچھ نیا نہیں ہے، روسیوں کو تین سال بعد اپنے ویزوں کی مدت میں توسیع کے لیے اپلائی کرنا پڑتا ہے، ان درخواستوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔‘
ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان کافی عرصے سے تنازعات چل رہے ہیں اور یہ تعلقات اس وقت مزید کشیدہ ہو گئے جب امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے ایک بیان میں روسی صدر ولادی میر پوتن کو ’قاتل‘ قرار دیا تھا۔16 جون کو جب جو بائیڈن اور ولادی میر پوتن کے مابین ملاقات ہوئی تو اس کشیدگی میں کسی حد تک کمی دیکھنے میں آئی تھی۔نیڈ پرائس کا کہنا ہے کہ ’ہم روس کی کارروائیوں کے خلاف مناسب جواب دینے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔‘واشنگٹن نے گذشتہ سال امریکی انتخابات میں مداخلت کرنے، سائبر ہیکنگ اور دیگر وجوہات کی بنا پر مارچ اور اپریل میں روس پر پابندیاں عائد کی تھیں تاہم نیڈ پرائس کا کہنا ہے کہ ’یہ جوابی اقدامات تھے۔‘انتونی آنتونوف نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ’ہم امید کرتے ہیں کہ سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا جائے گا اور ہم امریکا اور روس میں روسیوں اور امریکی سفارت کاروں کی زندگیوں کو معمول پر لانے کے قابل ہو جائیں گے۔‘