Urdu News

قذافی کی موت کے بعد سیف الاسلام قذافی کا پہلا انٹرویو

سیف الاسلام قذافی

"قذافی کا بیٹا ابھی زندہ ہے اور لیبیا کو واپس لینا چاہتا ہے" کے عنوان سے نیویارک ٹائم میگزین نے 10 سال کی گمشدگی کے بعد لیبیا کے سابق مرد آہن مقتول کرنل معمر قذافی کے بیٹے سیف الاسلام قذافی کے ساتھ پہلا طویل پریس انٹرویو شائع کیا ہے، اس میں سیف الاسلام قذافی نے قید میں گذرے اپنے المناک برسوں کا تذکرہ کیا اور لیبیا کے اگلے صدر بننے کے لیے انتخابات میں حصہ لینے کے امکان کا بھی عندیہ دیا ہے۔

امریکی صحافی رابرٹ ورتھ نے لیبیا کے زنتان شہر میں قذافی کے بیٹے سیف الاسلام سے ملاقات کی۔ امریکی صحافی سے گفتگو میں سیف الاسلام نے کہا کہ وہ نقل وحرکت کے لیے آزاد ہیں اور اپنے ملک میں سیاسی میدان میں واپسی کا انتظام کر رہے ہیں۔سیف الاسلام نے کہا کہ لیبیا پر حکمرانی کرنے والی ملیشیائیں صدر اور ریاست کے تصورکی مخالف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لیبیا پر سویلین کپڑوں میں ملیشیا کا راج ہے۔ میں ایک آزاد آدمی ہوں اور میں سیاست میں واپس آنے کی کوشش کر رہا ہوں۔

اس کا کہنا تھا کہ اسے ایک غار میں گرفتار کیا گیا اور دنیا سے الگ تھلگ رکھا گیا۔ جب جیلر انقلاب کے وھم سے باہر آئے تو وہ میرے دوست بن گئے۔سیف الاسلام قذافی نے مزید کہا کہ میں جان بوجھ کر غائب ہو گیا کیونکہ لیبیا کے لوگ ابہام کی طرف راغب ہیں۔ سیف نے بتایا کہ اس کے دائیں ہاتھ پر چوٹ 2011 میں نیٹو کے حملے کے دوران لگی۔

دس سال پہلے لیبیا کے صحرائی شہر ’اوباری‘ کے قریب مسلح باغیوں کے ایک گروہ نے ایک چھوٹے سے قافلے کو روک لیا۔ یہ قافلہ جنوب میں نائیجر کی طرف فرار ہو رہا تھا۔ مسلح افراد نے ایک نوجوان گنجے آدمی کو ڈھونڈنے کے لیے کاریں روکیں جس کے دائیں ہاتھ پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ انہوں نے ایک چہرہ دیکھا جو ہمیشہ لیبیا کے ٹیلی ویڑن پر دیکھا جاتا تھا۔ وہ سیف الاسلام قذافی ہیں۔ جو لیبیا کے مرحوم رہ نما کے دوسرے بیٹے اور باغیوں کے اہم اہداف میں سے ایک ہیں۔

فروری 2011 میں لیبیا کے انقلاب کے پھیلنے سے پہلے مغرب نے سیف الاسلام سے ملک میں بتدریج اصلاحات لانے کی امید کی تھی۔ وہ خوب صورت شکل اور روانی کے ساتھ انگریزی بولنے کی وجہ سے اپنے چالاک اور سنجیدہ باپ سے بہت مختلف دکھائی دیتا تھا۔ سیف الاسلام نے لندن سکول آف اکنامکس میں تعلیم حاصل کی اور جمہوریت اور انسانی حقوق کا سبق پڑھا۔ اس نے نامور سیاسی لیڈروں سے دوستی کی اور لیبیا کے نوجوانوں کو شہری تعلیم پر لیکچر دیا۔ یہاں تک کہ مغرب میں اس کے کچھ دوست اسے لیبیا کا متوقع نجات دہندہ سمجھنے لگے۔لیکن جب انقلاب برپا ہوا سیف الاسلام قذافی حکومت کی طرف سے شروع کیے گئے وحشیانہ کریک ڈاؤن میں شامل ہو گئے۔ 9 مہینوں کے بعد کامیاب ہونے والے باغیوں کے لیے اسے ماوارئے عدالت انجام سے دوچار کرنے، اس کے باپ اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں کی طرح موت سے ہم کنار کرنا آسان تھا لیکن خوش قسمتی سے اسے ایک آزاد بٹالین نے پکڑ لیا جس نے دوسرے شدت پسند گروپوں سے اسے بچایا اور ہوائی جہاز سے زنتان شہر پہنچایا۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کو بھی مطلوب تھا۔ اسے ایک مہنگا جنگی قیدی سمجھا گیا۔ اسے وہاں قید کردیا گیا اور 2012ء کے انتخابات کے بعد بھی وہ بدستور قید رہا۔

اگلے برسوں میں لیبیا حریف ملیشیا میں تقسیم ہوگیا اور دہشت گردوں نے اسلحہ لوٹ لیا۔شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں بغاوتوں اور جنگوں کو ہوا دی۔ انسانی سمگلنگ میں اضافہ ہوا جس کی وجہ سے تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد کو بحیرہ روم کے راستے یورپ بھیجا گیا۔ داعش نے لیبیا کے ساحل کے کچھ حصوں پر قبضہ کر لیا۔آہستہ آہستہ لیبیا کے لوگوں نے سیف الاسلام کے بارے میں اپنا نظریہ بدلنا شروع کیا۔ یہ سیف الاسلام تھا جس نے 2011 میں انقلاب کے ابتدائی دنوں میں لیبیا کی تقسیم کی پیش گوئی کی تھی۔ اس کو پکڑنے والے خود بھی اس کے مداح بن گئے اور اسے صدارتی امیدوار بھی نامزد کرنے کے لیے تیار ہوگئے تاہم اس کے باوجود سیف الاسلام کے ٹھکانے کا کوئی علم نہیں تھا۔

سیف الاسلام نے سیاسی منظر نامے سے دور رہنے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مشرق وسطیٰ کی سیاسی صورتحال کا مطالعہ شروع کیا اور اپنے والد کی سیاسی قوت جسے "گرین موومنٹ" کہا جاتا ہے کو آہستہ آہستہ فعال کرنا شروع کیا۔ صدارت کے لیے اپنی امیدواری کے امکان کے بارے میں بات کرتے ہوئے سیف الاسلام نے کہا کہ وہ جس تحریک کی قیادت کر رہے ہیں وہ ملک کا کھویا ہوا وقار اور اتحاد بحال کر سکتی ہے۔ اس نے اپنی مہم کے لیے جو نعرہ منتخب کیا ہے وہ ہمارے ملک سمیت کئی ممالک میں کامیاب رہا ہے۔اس کا کہنا ہے کہ سیاستدانوں نے آپ کو تکلیف کے سوا کچھ نہیں کیا۔ہمیں ایک بار پھر پیچھے کی طرف پلٹنا ہوگا۔سیف الاسلام نے اپنے سیاسی مخالفین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہمارے ملک کے ساتھ زیادتی کی ہے اور اس کی تذلیل کی ہے۔ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں، سیکورٹی نہیں ہے، زندگی نہیں ہے۔ اگر آپ گیس اسٹیشن پر جائیں گے تو آپ کو ایندھن نہیں ملے گا۔ ہم اٹلی کو تیل اور گیس برآمد کرتے ہیں۔ اٹلی کا آدھا حصہ ہماری وجہ سے روشن ہوتا تھا۔ آج ہمارے پاس اپنے لیے بجلی نہیں۔ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ناکامی کے سوا کچھ نہیں۔انقلاب کے ساتھ جوش و خروش کے دس سال بعد بیشتر لیبیا والے سیف الاسلام کے اس خیال سے متفق ہیں۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق سیف الاسلام کے منظر عام سے غائب رہنے کے باوجود ان کی صدارت کی خواہشات کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ ان مذاکرات کے دوران جن کے نتیجے میں لیبیا کی موجودہ حکومت بنی ان کے حامیوں کو حصہ لینے کی اجازت دی گئی۔ سیف الاسلام تک مہارت سے انتخابات کے لیے راہ ہموار کرنے میں اپنے راستے کی رکاوٹیں ہٹانے میں کامیاب ہوچکا ہے۔ اس نے لیبیا میں اپنے لیے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کی راہ ہموار کرلی ہے۔ ایک سروے رپورٹ کے مطابق لیبیا کے 57 فی صد لوگ سیف الاسلام قذافی پر اعتماد کرتے ہیں۔دو سال قبل یہ افواہ گردش کرتی رہی کے سیف الاسلام کے ایک حریف نے اسے جان سے مارنے کے لیے تیس ملین ڈالر کی رقم ادا کی تھی۔ سیف الاسلام کے قتل کی یہ پہلی کوشش نہیں تھی۔سیف الاسلام نے کہا کہ ان کی حراست کے ابتدائی سالوں کے دوران ان کا بیرونی دنیا سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ انہوں نے اس عرصے کا کچھ حصہ ایک غار نما جگہ میں گزارا۔ زنتان شہرمیں ایک صحرائی علاقے میں بنے مکان کے تہہ خانے میں اسے قید کیا گیا۔ اس کمرے کی کوئی کھڑکی نہیں تھی اور دن رات کا فرق پتا نہیں چلتا تھا۔ وہ تن تنہا وہاں قید تھا اسے لگتا تھا کہ موت اس کے سر پر کھڑی ہے تاہم اس کا ایمان مضبوط ہو گیا۔

Recommended