"سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے گزشتہ دنوں العربیہ ٹی وی کو انٹرویو میں کہا کہ “حدیث رسول صل اللہ علیہ وسلم” ماخذ دین نہیں ہے۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خبر واحد بلکہ خبر متواتر تک کو 'سورس آف لاء' نہیں بنایا جا سکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن سے صراحت کے ساتھ کسی باب میں حکم موجود ہو تو ہو یا سنت متواترہ ہو تو ٹھیک وگرنہ 'اجتہاد کے ذریعے معاملات طے کیے جائیں گے'…
ایم بی ایس کے انٹرویو کے بعد شیخ الازہر نے ان کی حمایت کرتے ہوئے لکھا کہ فقہی آراء مقدس اور ناقابل ترمیم ہرگز نہیں ہیں، فقہی آراء کی تقدیس سے فکری جمود پیدا ہوتا ہے۔ قدیم فقہی مسائل و فتاوی جات دراصل مخصوص دور میں فقہاء کے اجتہاد و تجدید کی کاوشیں ہی تو تھیں۔
یعنی ہمیں بھی انہی کے نقش قدم پر چل کر اجتہاد و تجدید کی طرف جانا چاہیے، نہ کہ ان کے اقوال کو حرف آخر مان لیں۔
شیخ الازھر نے انہی دنوں ایک اور ٹویٹ میں لکھا کہ خود قرآن میں مذکور تمام اوامر و نواہی بھی واجب یا حرام کی نوعیت کے نہیں ہیں۔ چنانچہ ہر معاملے میں قرآن کی آیت سے فقط ایک ہی طرح کے احکام ثابت کرنا بھی درست اپروچ نہ ہو گی"
پرنس سلمان کا یہ بیان اسلامی تاریخ میں ایک ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوگا. اور اس ایک بیان نے پوری دُنیا کی وہابیت کا گلا گھونٹ دیا ہے. کیونکہ وہابیت کی اساس ہی قرآن و حدیث ہے. وہ کسی امام کے اجتہاد کو نہیں مانتے. مصر کے جامعۃ الازہر والوں نے پرنس سلمان کی بات کی تائید کی ہے جو کہ خود ایک انوکھی بات ہے. کیونکہ مصری جامعہ الازہر اور سعودی عرب ایسے ہی ہیں جیسے کیتھولک اور آرتھوڈوکس مسیحی…
ان دو دھڑوں کی بات کرونگا تو پوسٹ کافی لمبی ہوجانی ہے بس اتنا سمجھ لیں کہ پوری دنیا کے وہابی، سلفی مکہ کی طرف دیکھتے ہیں شرع کے معاملات کے لیے اور باقی کچھ فرقے جامعہ الازہر کی طرف.
اب آتے ہیں اصل مدعے پر… پرنس سلمان نے کتنی بڑی بات کہی ہے آپ اس سے اندازہ لگا لیں اگر کوئی عالم دین بر صغیر میں ایسی بات کرتا تو شاید اب تک قتل ہوچکا ہوتا.. اس نے صریحاً احادیث کی اہمیت سے ناصرف انکار کیا ہے بلکہ بخاری و مسلم کی Authenticity پر بھی سوال اُٹھایا ہے.
یہ اسلام کے اندر ریفرمیشن کا پہلا قدم ہے. عیسائیت میں ریفرمیشن کوئی چار سو سال پہلے ہوئی تھی. اور آہستہ آہستہ عیسائیت کا جو حال ہوا وہ ہمارے سامنے ہے. کیونکہ عالم اسلام مغرب سے ویسے ہی دو تین سو سال پیچھے ہے سو اسلام کی باری اب آئی ہے. مگر کیونکہ زرائع ابلاغ اب بہت تیز ہیں، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، کیبل وغیرہ اس لئے اسلام کا دھڑن تختہ ہونے میں چار سو سال نہیں لگیں گے.
مجھے ڈینیل ڈینیٹ کی بات یاد آتی ہے کہ "یہ صدی مذہب کی آخری صدی ہے"…. ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے..
.ابھی 79 سال پڑے ہیں."
تحریر : ایاز انجم